پاکستان کے موجودہ حالات اور 12 اکتوبر 1999ءکے حوالے سے آجکل بحث چل رہی ہے۔ نوازشریف کا تختہ اُلٹے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حالت کا خصوصی ذکر ہے۔ ایک کالم نگار نے میاں شریف مرحوم کے جنازے پر قلم اٹھایا ہے اور ایک سابق بیورو کریٹ نے اس حوالے سے ایک ٹی وی چینل پر گوہر افشانی کی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سنی سنائی باتوں یا میڈیا میں آنے والے واقعات کی روشنی میں اپنی معلومات کی جوت جگاتے ہیں۔ نوائے وقت کیلئے مسلم لیگ (ن) کے بیٹ رپورٹر کی حیثیت سے کم از کم پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے لگ بھگ ہر ایونٹ کو اس خاکسار نے نوائے وقت کیلئے رپورٹ کیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ البتہ 2008ءمیں مسلم لیگ (ن) کے برسراقتدار آنے کے بعد راقم کی بجائے یہ ذمہ داری اس وقت کے چیف رپورٹر نوائے وقت کو سونپ دی گئی تھی اور (ن) لیگ کے علاوہ دیگر مسلم لیگی دھڑے میری ذمہ داری دے رہے تھے۔ اضافی پارٹیوں میں پی ٹی آئی‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ ایم کیو ایم اور کچھ عرصہ دینی‘ سیاسی جماعتیں بھی شامل رہیں۔ یکم ستمبر 2012ءکو مجھے چیف رپورٹر نوائے وقت کی ذمہ داری ملنے کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کی بیٹ بھی واپس مل گئی۔ اب جبکہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے اور بہت سے لوگوں کی حقائق مسخ کرنے والی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں‘ سوچا کہ کیوں نہ 12 اکتوبر 1999ءکے زمانے کی یادیں تازہ کی جائیں۔
12 اکتوبر 1999ءکا سانحہ ہوا تو میں اس وقت روزنامہ اُمت کراچی اور نیوز ایجنسی آن لائن کا بیورو چیف تھا۔ یکم مارچ 2001ءکو میں نے سینئر رپورٹر کی حیثیت سے نوائے وقت جوائن کیا۔ پہلے 12 اکتوبر 1999ءکا ذکر ہو جائے۔ اس روز جس وقت کھیل شروع ہوا میں نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کی رہائش گاہ پلس دفتر نزد ریلوے سٹیشن پر نوابزادہ صاحب کا انٹرویو کر رہا تھا۔ میرے ہمراہ صحافی سہیل شہریار اور فوٹوگرافر پرویز الطاف تھے۔ یہ آن لائن کیلئے پینل انٹرویو تھا۔ سو فوج کے وزیراعظم ہاﺅس میں داخل ہونے‘ وہاں ہونے والی کشمکش اور پی ٹی وی پر فوج کے قبضے کے دوران اتار چڑھاﺅ ہم نے نوابزادہ صاحب کے یہاں ٹیلیویژن پر آمدہ خبروں اور اسلام آباد سے ایڈیٹر آن لائن جاوید قریشی سے ٹیلیفونک رابطوں کے ذریعے دیکھے۔ اس کی تفصیل پھر کبھی بیان کروں گا۔ اس وقت میں ایک واقعہ ضرور سامنے لانا چاہوں گا جس کا تعلق کسی حد تک کیپٹن صفدر کی قومی اسمبلی میں حالیہ تقریر سے بنتا ہے۔ 2000ءکے ابتدائی مہینے تھے کہ ایک شب پونے گیارہ بجے کیپٹن صفدر کا ٹیلیفون آیا۔ میں دفتر سے اُٹھنے ہی والا تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف کیپٹن صفدر تھے۔ انہوں نے کہا کہ مریم نے خبر لکھانی ہے‘ اس نے نوائے وقت میں سلمان غنی کو لکھوا دی ہے‘ لیکن میں نے اسے کہا کہ الگ الگ رپورٹروں کو لکھوانے کی بجائے خواجہ صاحب کو ”آن لائن“ میں دیدیتے ہیں۔ وہاں سے تمام اخباروں کو چلی جائے گی۔ میں نے خوشدلی سے کہا ”ضرور ضرور۔“ کیپٹن صفدر نے فون مریم کو تھما دیا۔ انہوں نے سلام دعا لی اور کہا کہ پلیز جنگ میں پرویز بشیر صاحب کو یہ خبر ضرور دیدینا اور پھر انہوں نے پہلا جملہ بولا ”12 اکتوبر کا انقلاب فوجی انقلاب ہے یا قادیانی انقلاب۔“ میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ اس کے بعد دیگر جملے بھی شعلے برساتے ہوئے تھے۔ خیر میں نے خبر بنائی اور اپنے ہیڈ آفس آن لائن اسلام آباد بھجوادی۔ میرے نزدیک خبر حساس نوعیت کی تھی۔ ہیڈ آفس سے میں نے خبر کی کلیئرنس مانگی۔ ادھر ”اُمت“ کو میں نے اپنی ڈیٹ لائن سے خبر بھجوائی۔ مجید نظامی (مرحوم) کے علاوہ پاکستان میں رفیق افغان جیسا کوئی ایڈیٹر اس وقت موجود نہیں تھا۔ اسلام آباد آن لائن آفس سے جواب آیا کہ چیف ایڈیٹر سلیم بخاری جوکہ ان دنوں دی نیشن کے ایڈیٹر اور وقت نیوز کے اہم ذمہ دار منصب پر فائز ہیں‘ گھر جا چکے ہیں۔ ایڈیٹر جاوید بخاری بھی موجود نہیں۔ سو میں نے اپنی ذمہ داری پر خبر ریلیز کر دی۔ قومی اخبارات میں سے بہت سوں نے اسے شائع کیا‘ لیکن نوائے وقت کے ایک معاصر نے صفہ اول پر اس خبر کو شائع کرکے میری نوکری خطرے میں ڈال دی۔ مجھے نیوز ایجنسی آن لائن اور روزنامہ اُمت دونوں کی جانب سے شوکاز نوٹس ملے اور غیر ذمہ داری کا الزام لگاتے ہوئے جواب طلبی کی گئی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ دونوں اداروں کی آئی ایس پی آر نے گوشمالی کی تھی۔ اب جبکہ کیپٹن صفدر نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے 12 اکتوبر کے انقلاب کے حوالے سے وہی الفاظ دہرائے تو میں مسکرائے بنا نہ رہ سکا کہ دونوں میاں بیوی آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں 1999ءاور 2000ءمیں کھڑے تھے۔
جہاں تک 12 اکتوبر 1999ءکے بعد مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے باہر نہ نکلنے کا تعلق ہے‘ یہ پھبتی کسنے والے بھول جاتے ہیں کہ مسلم لیگ ایک سیاسی جماعت ہے‘ عسکری تنظیم نہیں۔ سیاسی کارکن سیاسی جدوجہد کر سکتے ہیں‘ مسلح لڑائی نہیں۔ سو فوجی حکومت کے سامنے باہر نہ نکلنا فطری عمل ہے۔ دوسرے میاں نوازشریف اس وقت اس طرح کے لیڈر نہیں تھے کہ ترکی کی طرح پاکستان کے عوام بھی سڑکوں پر آجاتے۔ اس زمانے کے اخبارات دیکھ لیں کہ مسلم لیگ (ن) کے عہدیدار اور کارکن حکومت کے دفاع کیلئے تیار نہیں تھے کیونکہ میاں نوازشریف نے 1997ءمیں جن نعروں پر الیکشن جیتا تھا‘ ان کو نظرانداز کر دیا تھا۔ عوام کو ریلیف دینے کے ایجنڈے کو اولیت دینے کی بجائے انہوں نے سیاسی نظام کو مستحکم کرنے کیلئے چیف جسٹس سے متھا لگا لیا تھا۔ آرمی چیف کے ساتھ بھی اِٹ کھڑکا لگا ہوا تھا۔ اگرچہ جنرل پرویزمشرف کو انہوں نے آرمی چیف کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنا دیا تھا‘ لیکن کارگل کے واقعہ کے بعد جنرل پرویزمشرف ان سے خائف ہو گئے تھے۔ نوازشریف نے قدرے تاخیر سے انہیں تبدیل کیا۔ اس وقت تک وہ بغاوت کا تانا بانا بُن چکے تھے۔ نوازشریف حکومت کی مخالف لگ بھگ تمام جماعتیں ون پوائنٹ ایجنڈا ”نوازہٹاﺅ“ کے ساتھ میدان میں تھیں۔ قاضی حسین احمد کی جماعت اسلامی اور سردار فاروق لغاری کی ملت پارٹی گرینڈ ڈیموکریٹ الائنس میں شامل نہیں تھیں‘ تاہم یہ دونوں جماعتیں بھی نوازشریف کی مخالف تھیں۔ میاں اظہر ایم این اے مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے بغاوت کر چکے تھے۔ قومی اسمبلی میں جنرل مجید ملک اور ان کے لگ بھگ دس ساتھی آزاد گروپ کا پلیٹ فارم استعمال کر رہے تھے۔ بہت سوں کے ڈانڈے جنرل پرویزمشرف سے ملتے تھے۔ سو جب 12 اکتوبر 1999ءہوا تو نوازشریف حکومت مخالف سڑکوں پر دندنا رہے تھے جبکہ نوازشریف کے حامی دبک گئے تھے۔