اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ ایجنسیاں) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے اس بات کا عندےہ دےا ہے ہم تمام تحقیقات کو نئے سرے سے کھول رہے ہیں۔ میں کیسز کی ایک فہرست برطانیہ کے پاس لے کر جارہا ہوں، ہم نے برطانیہ سے دوبارہ کچھ چیزیں مانگی ہیں۔ ہم متحدہ عرب امارات اور چین سے بھی معلومات تک رسائی کا معاہدہ کررہے ہیں۔ شاےد جلد اےل اےن جی پر نیب کوئی ریفرنس دائر کردے گا، پانامہ پیپرز میں سامنے آنے والے دیگر ناموں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، برطانیہ میں بدعنوانی کے کیسز کھلوانے جا رہا ہوں ۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کوئی شخص لوٹی ہوئی دولت رضاکارانہ واپس کرنے کا کہتا ہے تو ہم واپس لینے کے لئے تیار ہیں، سوئٹزر لینڈ سے معاہدے پر دستخط کرنے میں پانچ سال ضائع کئے گئے، ہم سوئٹزر لینڈ سے دو طرفہ معاہدہ دوبارہ کر نے جا رہے ہیں، ہم نے جرمنی سے درخواست کی ہے ہمیں سوئس اکاﺅنٹس کا ڈیٹا فراہم کیا جائے۔ انہوں نے کہا ہمارا ملکی قرضہ 30ہزار ارب سے تجاوز کرچکا ہے‘ گیس کا گردشی قرضہ 157بلین ہے‘ پی آئی اے کا 400بلین جبکہ بجلی کا 1200بلین سے زائد کا خسارہ ہے۔ یہ سب کچھ ہمیں وراثت میں ملا، کالے دھن کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات کے پیچھے بڑا ہاتھ کالے دھن کا ہے۔ پاکستان سے 9سے 10ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہورہی ہے۔ ملتان میٹرو میں تیس ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کا سکینڈل سامنے آیا ہے۔ ایک رکشے والی کی پانچ ٹرانزیکشنز کے اندر دو ارب روپے نکلتے ہیں۔ ایک رضائی فروش کو پتہ چلتا ہے اس کے اکاﺅنٹ میں اسی کروڑ پڑے ہیں۔ ہم نظام کی بحالی کررہے ہیں۔ یہی ادارے اب بہتر کام کرتے نظر آرہے ہیں۔ ایک آرگنائز گروپ ان اکاﺅنٹس کو استعمال کرتا ہے جبکہ پبلک کمپنیاں ملازمین کے نام پر بنائی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا نیب ایک آزاد ادارہ ہے نیب کی گزشتہ دس سال کی کارکردگی پر سوالیہ نشان تھا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کے آنے سے نیب بحال ہورہا ہے۔ جعلی اکاﺅنٹس کا معاملہ ایف آئی اے سے نکل کر جے آئی ٹی میں چلا گیا ہے، تحقیقات مکمل ہونے کے بعد یہ نیب کا ریفرنس بنے گا۔ برطانیہ کی کرائم ایجنسی سے ملاقاتیں ہوں گی اور ان کیسز میں اسحاق ڈار کا معاملہ بھی شامل ہے وہ خود آجائیں تو اچھی بات ہے۔ انہوں نے کہا ایک جوڑا جو لندن میں پکڑا گیا تھا اس کے حوالے سے بھی ہمارے پاس آپشن ہے ہم سول پروسیڈنگ کے تحت جائیں، اس کے گھر چھاپے مارے گئے تو مزید اکاﺅنٹس کی تصدیق ہوئی۔ انہوں نے کہا کچھ لوگ ایسے بھی نکلتے ہیں جنہوں نے ایمنسٹی سکیم کلیم کی ہوئی ہے۔ پی ٹی اے کے ساتھ مل کر سمگل شدہ فونوں پر بھی کریک ڈاﺅن ہورہا ہے۔ اے پی پی کے مطابق انہوں نے کہا ہم کرپشن کے تمام بڑے کیسز کا ازسرنو جائزہ لے رہے ہیں، اس حوالے سے ہمارا برطانیہ کے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے، آئندہ ہفتہ میں خود برطانیہ جا رہا ہوں اور میری منظم جرائم کے خلاف برطانوی ایجنسی (نیشنل کرائم ایجنسی) کے ہم منصب کے ساتھ ملاقات ہو گی میں ان سے کہوں گا برطانیہ میں پاکستانیوں کے جو مقدمات زیرالتوا ہیں اس پر کام کیا جائے۔ این این آئی کے مطابق شہزاد اکبر نے کہا بیرون ملک غیرقانونی طریقے سے رقم منتقل کرنے والے سینکڑوں ہیں ¾نام نہیں بتا سکتا ¾کالے دھن کو دیکھنے کی اشد ضرورت ہے، جس ملک سے بھی غیر قانونی رقم منتقلی کا سراغ ملا وہاں جائیں گے، لوگوں نے ملازمین کے نام پر کمپنیاں بنائی ہوئی ہیں، تحقیقات کے بعد یہ کیس واپس نیب کے حوالے کئے جائیں گے اور وہی انہیں فائل کرےگا، ہم گرے لسٹ سے بلیک لسٹ کی طرف جارہے تھے، سابق حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، سوئس بینکوں میں موجود پاکستانی رقم واپس لانے کے معاہدے میں5سال ضائع کیے گئے، سوئس اکاﺅنٹس میں 200 ارب ڈالر کا اسحاق ڈار ہی بتاسکتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر فیک اکاﺅنٹس سامنے آرہے ہیں جن کے ذریعے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی۔ غریب لوگوں کے جعلی اکاﺅنٹس بنا کر پیسہ منتقل کیا جارہا ہے۔ کرپشن کے خاتمے کےلئے تیزی سے کام ہورہا ہے، آپ تھوڑا صبر کر لیں سب چیزیں سامنے آ جائیں گی۔ ماضی کی حکومتوں کی ناقص حکمت عملی سے معاشی مشکلات بڑھیں، قرضوں کا بوجھ ڈال کر ملکی معیشت کو تباہ کیا گیا، حکمرانوں کے ذاتی مفاد آتے تھے اداروں کو کام نہیں کرنے دیا جاتا تھا۔ انہوں نے کہا پاکستان پر 30ہزار ارب روپے کا قرض ہے، پی آئی اے، سٹیل ملز، ریلوے سمیت تمام اداروں کا خسارہ اربوں روپے میں ہے یہ تباہ کن معاشی صورتحال ہمیں ورثے میں ملی۔ ملک میں سالانہ نو سے دس ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔ میگا پراجیکٹ میں کرپشن ہوئی، ملتان میٹرو سکینڈل سامنے آیا اور وائٹ واش کر دیا گیا۔آئی این پی کے مطابق وزیراعظم کے مشیر برائے میڈیا امور افتخار درانی نے (ن)لیگ کے خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پر ڈالے جانے کی خبروں کو فیک نیوز قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا تحریک انصاف کی حکومت آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے اور اپنے آپ کو جوابدہ سمجھتی ہے، ہمارے اوپر کوئی پریشر نہیں تھا، ہم نے اپنی 100 دن کی کارکردگی کے حوالے سے ویب سائٹ خود لانچ کی ہے، فیک نیوز کے حوالے سے کیسز پیمرا کو ریفر کر دیئے ہیں۔
معاون خصوصی احتساب