بربادِ گلستاں کرنے کو ایک ہی اُلّو کافی

آج پاکستان ایک انتہائی نازک موڑ پر اور بہت سی اپنے اور غیروں کی سازشوں کا شکار ہے اور کچھ اپنے اور غیر پاکستان کی روح پر مزید زخم لگانے سے گریز نہیں کر رہے ۔ یہ لوگ پاکستا ن میں اقتدار کے ناقابل یقین مزے بھی لوٹتے رہے اور سارا خاندان بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ اپنی من مانیاں بھی کرتا رہا۔ اور ان سے بارہا سوال کیا گیا کہ مودی سے دوستیاں کس لیے بڑھائیں اور جندال کس ایجنڈے پر کام کرنے کیلئے پاکستان آتا رہا ؟ اگر کوئی نیشنل ایجنڈا تھا تو پاکستانی اپوزیشن اور قوم کو بتایا جائے ۔لیکن آج قوم کو یہ پتہ چل چکا ہے کہ اجیت ڈوول ، جندال اور مودی ایک ٹرائیکا ہے۔ جندال اور ڈوول کو مودی نے کیا Assignment دی ہے پاکستانی قوم کو جان لینا چاہیے کہ اجیت ڈوول کو ٹارگٹ دیا گیا ہے کہ پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔ مودی جب 2014 میں وزیر اعظم کا حلف اٹھاتا ہے تو سب سے پہلی اپوائنٹمنٹ اجیت ڈوول کی کرتا ہے ۔ اسے نیشنل سیکورٹی کونسل کا ایڈوائزر بنایا جاتا ہے اور دوبارہ وزیراعظم بننے کے بعد پھر مزید 5سال کیلئے اسے Continue کرنے کے آرڈر کرتا ہے۔
اجیت ڈوول CBIکے اندر اہم زمہ داریاں نبھا چکا ہے اور پاکستان کے اندر انڈین ایمبیسی میں بھی کام کر چکا ہے اور ڈپلومیٹ کے روپ میں کلبھوشن کا کام سر انجام دیتا رہاہے ۔بُش نے جو آگ دنیا کو لگائی تھی آج صدر ٹرمپ افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا کر اور ایران سعودی عریبیہ کے درمیان وزیر اعظم پاکستان کو ثالثی کا رول ادا کرنے کا کہہ کر اس آگ پر پانی ڈالنا چاہتے ہیں ۔ اور انشاء اللہ عمران خان اس ضمن میں عالم اسلام کیلئے اپنا بہترین رول ادا کرتے رہیں گے ۔ مگر افسوس کہ آج جس وقت وزیر اعظم اپنا رول ادا کر رہے ہیں تو پاکستان کے اندر بہت سے لوگ بے نقاب بھی ہو رہے ہیں ۔ وہ بجائے وزیر اعظم کا ساتھ دینے کے اسلام آباد پر قبضہ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں ۔وہ لوگ کوئی غیر نہیں اس ملک کے بار بار وزیر اعظم بن چکے ہیں ۔ اور ایک دوسرے لیڈر کی والدہ اور نانا جان اس ملک کے وزیر اعظم ہائوس اور والد محترم جو آجکل کرپشن کیس میں جیل میں ہیں صدرِ پاکستان رہ چکے ہیں مولانا فضل الرحمن کے ہمرکاب ہیں ۔قوم کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن کے والد محترم جناب مفتی محمود صاحب نے بھی ایک تحریک بلاول بھٹو زرداری کے نانا ، آصف علی زرداری کے سسر اور محترمہ بینظیر بھٹو کے والدذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائی تھی اور اس کے نتیجہ میں پاکستان میں مارشل لاء لگا تھا۔ آج مفتی محمود صاحب کے ہونہار بیٹے مولانا فضل الرحمن صاحب اسلام آباد کو فتح کرنے کیلئے آزادی مارچ کر رہے ہیں جس میں پندرہ لاکھ لوگوں کی اسلام آباد آنے کی نوید بھی سنا چکے ہیں اور قدرت کا کھیل دیکھیں کہ آج بھٹو کی اولاد اور جنرل ضیاء الحق کے منظورِ نظر انکے ساتھ ہیں ۔ جو ہندوستان کی دوستی میں اپنی قبریں پاکستان میں بنوانے کیلئے تیار نہیں اُن کی اولاد بھی ساتھ ہے۔موجودہ حکومت کے بننے کے بعد مولانا نے کوئی دھاندلی وغیرہ کیلئے شور نہیں مچایا تو آج یکدم کیا یاد آگیا ہے؟ نواز شریف اور زرداری نے کبھی جیل سے بھی کشمیریوں کیلئے اپنا رول ادا کرنے کا نہیں سوچا جو آج مولانا کا ساتھ دینا اسلامی فریضہ سمجھ رہے ہیں ۔
پوری قوم یہ ضرور سوچے کہ اس آزادی مارچ کے بینفشری کون ہیں؟ عالمی کافرانہ نظام کے ہندو ایجنٹ اجیت ڈوول اور پاکستان ، اسلام اور ہمارے کشمیری بہن بھائیوں کے قاتل تو اس آزادی مارچ کے بینفشری نہیں ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن صاحب آپ ایک بڑے باپ کے بیٹے ہیں ۔ اندرون ملک آپکے مارچ کا فائدہ پاکستان لوٹنے والے لیڈروں کو ہی پہنچ سکتا ہے آپ کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ یاد رکھیں جو احتساب کے شکنجہ میں آئے سیاستدان یہ سوچ رہے ہیں کہ قوم ہمیں اس مارچ کے نتیجے میں جیلیں توڑ کر باہر نکالے گی تو ایسا نہیں ہونے والا ۔ جناب مجھے ڈر ہے کہ آج تک آپ سے چند فیلٹس اور شوگر ملز کے بارے میں ہی پوچھا جارہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس آزادی مارچ کے نتیجے میںسسٹم ہی بدل جائے اور احتساب کا نظام پاکستانی نظام سے نکل کر چینی ماڈل آجائے اور پاکستان سے کرپٹ لوگوں کے نام و نشان مٹ جائیں ۔ابھی مسلم لیگ ـ"ن "کاایک پیغام رسانی کرنے والا جو شہباز شریف کیلئے کام کر رہا ہے میں اداروں کو با ادب درخواست کرنا چاہتا ہوںBe carefull please آگے بڑھنا ہے تو آزمائے ہوئے چہروں کو کبھی مت آزمانا چہرے نہیں نظام درست کریں ۔میری اللہ کریم سے دعا ہے کہ آقا کریم ﷺ کا صدقہ پاکستان اور عالم اسلام پر خاص نظر فرمائیں ۔ وزیر اعظم عمران خان کو اتنا حوصلہ ، رتبہ، عقل ، سمجھ شعور ، جرأت اور عزت عطا فرمائی ہے تو اسے اچھی ٹیم بھی عطا فرمادیں (آمین)
مجھے ڈر ہے کہ اگر اس وقت ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور آپس میں قومی اتحاد اور یکجہتی کو برقرار رکھنے کی بجائے اپنی اپنی بولیا ں بولتے رہے تو پھر شاید کسی کہنے والے نے یہ درست ہی کہا ہوگا کہ :۔
بربادِ گلستاں کرنے کو ایک ہی اُلّو کافی ہے
ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...