پاکستان سمیت دنیا بھر میں پندرہ اکتوبر نابینا افراد کی پہچان ’’ سفید چھڑی ‘‘ کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ انیس سو تیس میں فرانس کے شہر پیرس میں عام لاٹھیوں کو سفید رنگ دے کر اس دن کو متعارف کرانے کی روایت ڈالی گئی تھی اور پندرہ اکتوبر انیس سو پینسٹھ سے عالمی علامتی دن کے طور پر اسے اقوام متحدہ کے چارٹر میں باضابطہ طور پر شامل کیا گیا تھا۔ پاکستان میں یہ دن پہلی بارپندرہ اکتوبر انیس سو بہتر میں منایا گیا۔سفید چھڑی کا عالمی دن منانے کا مقصد نابینا افراد کو درپیش مسائل اور مشکلات کے متعلق معاشرے کو آگاہی فراہم کرنا اور دنیا کو یہ باورکرانا ہے کہ معذور افراد بھی تھوڑی سی توجہ کے ساتھ ایک ذمہ دار اور مفید شہری ثابت ہوسکتے ہیں۔سفید چھڑی تو نابینا افراد کو چلنے پھرنے میں تحفظ فراہم کرتی ہے تاہم سفر زیست کے لیے تعلیم، روزگار، صحت اور آبادی میں اضافہ توجہ طلب مسائل ہیں۔ پاکستان بھر کی بلائینڈ ایسوسی ایشنز بھی اس دن کو پرجوش انداز سے منانے کے لئے مختلف شہروں میں رنگا رنگ پروگرام منعقد کرتی ہیں جن کا مقصد نابینا افراد کو تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تمام مکاتب فکر تک نابینا افراد کے مسائل سے آگاہ کرنا اور نابینا افراد میں موجود قابلیت کو اجاگر کرنا ہے تاکہ نابینا افراد کے مسائل حل ہوسکیں ، ان کو آسانیاں میسر آئیں اور وہ ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار با حسن و خوبی ادا کرسکیں۔اسی وجہ سے دنیا بھر کے نابینا افراد کو ماہ اکتوبر کے اس دن کا شدت سے انتظا ر رہتا ہے ، جبکہ اس دن منعقد ہونے والے پروگرام نابینا افراد کے لئے انتہائی مسرت کا باعث ہوتے ہیں ۔ پندرہ اکتوبر 1999ء تک یہ دن بھر پورانداز سے منا یا جاتا رہا ، اورسرکاری اور نجی سطح پر منانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے لیکن پھر دنیا کے سرمایہ دار اداروں نے اس دن پر شب خون مارا اور اس دن کو گلوبل ہینڈ واشنگ ڈے یعنی ہاتھ دھونے کا دن مقرر کروادیا جس کا مقصد شعور کی بیداری کے نام پر اپنی مصنوعات کی تشہیر اور خود کو سماجی حیثیت میں سامنے لانا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یوم سفید چھڑی پر کمرشل پر ست میڈیا گلوبل ہینڈ واشنگ ڈے کے اشتہارات کی چکاچوند میں ایسا غرق ہوا کہ نابینا لوگوں کو اپنے دن پر صرف ڈھائی منٹ کوریج کی خیرات ملتی ہے، کیونکہ نابینا اداروں کے پاس تشہیر کیلئے پیسہ نہیں اس لیے ان کے مسائل آگے پہنچانے والا کوئی نہیں حکومتی سطح پر بھی یہ دن نظر انداز ہوتا رہا ہے۔ان حالات میں میڈیا کواپنی قومی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے نہ صرف نابینا لوگوں کے مسائل اجاگر کرنا چاہیئے بلکہ نابینا افراد کی کارکردگی بھی سامنے لانا چاہیئے۔ اس کے علاوہ سرمایہ دار کمپنیوں کو بھی سوچنا چاہیئے کہ انہوں نے ایک عظیم مقصد کیلئے منانے والے دن کے ساتھ جو زیادتی کی ہے وہ اس کا ازالہ کریں تاکہ معاشرے کا یہ طبقہ جو بظاہر فیوز بلب کی مانند دکھائی دیتا ہے ، اقوام عالم کی تھوڑی توجہ اور حوصلہ افزائی انہیں ایسے روشن چراغ میں تبدیل کرسکتی ہے جو معاشرے کے دیگر افراد میں بصیرت کا نور پھیلانے کا باعث بنے۔اس وقت دنیا بھر میں نابینا افراد کی تعداد تقریباً تین کروڑ 60 لاکھ ہے ، ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050ء میں یہ تعداد تین گنا بڑھ کر 11کر وڑ 50 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اسوقت جنوبی ایشیا میں ایک کروڑ 17 لاکھ افراد آنکھوں کے مرض کا شکار ہیں جبکہ مشرقی ایشیا میں یہ تعداد 60 لاکھ 20 ہزار ہے اور جنوب مشرقی ایشیاکی تیس لاکھ 50 ہزار آبادی متاثر ہے جبکہ پاکستان میں تقریباً 20 لاکھ افراد بینائی سے مکمل طور پر محروم ہیں یہاں اندھے پن کی شرح 1.08 ہے، جبکہ پاکستان میں جزوی طور پر نابینا افراد کی تعداد تقریباًساٹھ لاکھ کے قریب ہے، پاکستان کی سترہ فیصد آبادی ذیابیطس کی شکار ہے جو اندھے پن کی ایک اہم وجہ ہے جس سے آنکھ کے عدسے کے متاثر ہونے یعنی آنکھ میں موتیا آجانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں نابینا افراد کو کار آمد بنانے کے ادارے ناپید ہیں اور ان خصوصی افراد کو کسی قسم کی سہولت یا آسانی بھی میسر نہیں ، ان افراد کو روز مرہ کے کاموں کی انجام دہی میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تا ہم کچھ نجی ادارے اس کارخیر میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔ بصارت کی خرابی بعض صورتوں میں اس نوعیت کی ہوتی ہے کہ ایسے افراد سڑک کے پار کھڑے ہوئے شخص کو شناخت نہیں کر سکتے اور وہ قانونی طور پر ڈرائیونگ کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔ دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ نظر کی بیماریوں اور اس کے علاج معالجے پر سرمایہ کاری کریں کیونکہ اس سے نہ صرف متاثرہ افراد کی زندگیوں میں بہتری آئے گی بلکہ وہ کام کاج کر کے معیشت کو بہتر بنانے میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے۔ قدرت جب کسی سے ایک نعمت لیتی ہے تو دوسری کئی صلاحیتوں کو بیدار کردیتی ہے، بظاہر بصارت سے محروم نظرآنے والے لوگ چشم بصیرت رکھتے ہیں ان کے دل کی آنکھیں روشن، ان کے دماغ سوچ رکھنے والے اور قدرت کی نشانیوں کے عکاس ہوتے ہیں ان افراد کی صلاحیتوں کو استعمال میں لاکر انہیں سوسائٹی کا اہم ستون بنایا جاسکتا ہے ، جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو دو مرتبہ ورلڈ کپ آنکھوں سے محروم افراد نے جتوا کر اپنا نام عمران خان اور یونس خان کی صف میں کرلیا ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت بصارت کے محروم لیکن بصیرت افروز نابینا افراد کو باعزت روزگار دے کر یا مناسب وظیفہ مقرر کرکے ان کو معاشرے کا بہترین حصہ بنانے میں موثر کردار ادا کرے ۔
٭…٭…٭
بصارت سے محروم لیکن بصیرت افروز افراد
Oct 15, 2020