ٹی وی نامہ   آپاں جی بانو قدسیہ 

بانو آپا، جنہیں ہم سب ادب و احترام سے آپا ں جی کہا کرتے تھے، اشفاق صاحب کے جنت والے گھر میں منتقل ہو چکی ہیں۔ بانو قُدسیہ، آپاں جی بہت بڑی شخصیت تھیں اور ہم سب چھوٹوں کے سر پر اُن کا سایہ نہایت مبارک تھا۔ برکتیں تو اُن کی اب بھی ہم پر جاری و ساری رہیں گی مگر افسوس وہ فاصلے پیدا ہو گئے ہیں جو نہ ہوتے ہوئے بھی ہوتے ہیں۔ میں جب بھی جنابِ شفیق الرحمان،محترمی اِشفاق احمد صاحب اور بانو قُدسیہ صاحبہ کے بارے میں سوچتا ہوں ۔۔۔۔ اور کس دن نہیں سوچتا۔۔۔۔ تو مجھ پر ایک سر خوشی چھا جاتی ہے۔ بالکل یہ احساس ہوتا ہے جیسے زندگی کے صحرامیں چلتے چلتے کسی نخلستان کے اشجار سایہ دارتلے آ گیا ہوُں۔ اُن کی یادیں مجھے وہی تقویت دیتی ہیں جو اُن کی زندگیوں میں مجھے اُن کے قدموں میں بیٹھ کر حاصل ہُوا کرتی تھی۔مجھے ناشکرا ہونے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شُکْر ادا کروں کم ہے کہ مجھے اِن کے اور اِن جیسی کئی ایک خوبصورت و خوب سیرت ہستیوں کے سائے نصیب ہوئے!  مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میری ہدایات میں میری سب سے پہلی پروفیشنل اسٹیج پروڈکشن بانو آپا کا کھیل ’’اہلَ کرم‘‘ تھا۔ میرے پاس ایک فائل میں آج بھی اُن دنوں کے اخبارات میں ’اہلِ کرم‘ کے شائع ہونے والا ایک مُنا سا اشتہار دمک رہا ہے جس میں میرا کم مایہ نام بانو قدسیہ جیسے گراں مایہ نام کے ساتھ چھپا ہُوا ہے۔ الحمدللہ! یہ کھیل ثاقب شیخ اور کامران مفتی مرحومین(اللہ تعالیٰ اُنہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے! آمین!)ٰ نے پروڈیوس کیا تھا۔ ثاقب شیخ اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ ڈیزائنر آرٹسٹ بھی تھے توا سٹیج ڈیزائن اُنہی کے تھے۔ریہرسلز کے دوران میں ایک دن بانو آپا ریہرسل ملاحظہ فرمانے بھی تشریف لائی تھیں۔ آہ کیا دن تھے!!!لگتا ہے اُنہیں مجھ پر اعتماد تھا کیوں کہ میری زندگی کی سب سے پہلی باقاعدہ اسٹیج پر وڈکشن الحمرا لاہور میں تھیٹر ورکشاپ کے لیے اِشفاق احمد صاحب کے ریڈیو کھیل ’’بھرم‘‘کی پروڈکشن تھی جو مارچ 1964 میں ہوئی تھی۔ ’بھرم‘ کو میں نے ہی ریڈیو کھیل سے اسٹیج کے لیے اخذ(adapt ) کیا تھا اور اپنی ہی ہدایات میں اناسی سالہ نواب صاحب کا کردار بھی ادا کیا تھا۔ تو اُنہوں نے سوچا ہو گا کہ اگر یہ لڑکا اِشفاق صاحب کا کھیل کر سکتا ہے تو ’اہلِ کرم‘ بھی ٹھیک ہی کر لے گا۔ چناں چہ کھیل ہُوا اور سراہا بھی گیا۔کراچی کے ایک موقر اخبار مورخہ ۱۳ ؍ اپریل ۱۹۶۸  ؁ء میں شائع شدہ تبصرہ اس کھیل پر یوں تھا:  لاہور کے اسٹیج پر!:کہتے ہیں ،لاہور، سماجی سرگرمیوں کا گہواراہے اور پھر یہ بھی سنا ہے کہ موسمِ سرما لاہور میں تھیٹر کا موسم ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں اس دفعہ لاہور اس سلسلے میں قدرے بد قسمت ثابت ہُوا۔ سردیاں شروع ہوئیں تو لوگ انتظار کرنے لگے کہ ڈرامے دیکھنے کو نصیب ہوں گے۔ لیکن مہینے پر مہینہ گزرنا شروع ہو گیا۔ اور بالآخر ڈرامے ہوئے تو کب؟ جب موسم اپنی بہار دکھا کر رخصت ہو رہا تھا۔ لاہور کی اکلوتی الحمرا کی اسٹیج یک دم مصروف ہو گئی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس سال ڈرامے والے یا تو لاہور سے غائب رہے ہیں یا پھر تمام سردیاں تیاریاں کر کے سردیوں کے آخر میں تمام ڈرامے کر دینے کا عہد کر چکے تھے۔پچھلے ڈیڑھ ماہ کے دوران میں لاہور میں کم و بیش چار یا پانچ مختلف کھیل پیش کیے گئے۔ اور آج کل وہاں کھیلا جانے والا ڈرامہ ’’اہلِ کرم‘‘ بھی حسبِ معمول الحمرا کے ہال ہی میں پیش کیا جارہا ہے۔ اہلِ کرم اسٹیج کے لیے بانو قدسیہ نے لکھا جن کے کھیل آج کل لاہور والوں اور لاہور کے ڈرامہ والوں میں بہت مقبول ہیں۔ اندازہ  یوں کیا جا سکتا ہے کہ پچھلے دنوں بانو قدسیہ کے لکھے ہوئے جو کھیل پیش کیے گئے اُن میں سب سے پہلے ’’اک ترے آنے سے‘‘ اسکے بعد ’’آدھی بات‘‘ یہ دونوں کھیل لاہور اور پھر کراچی میں بے حد مقبول ہوئے) اور پھر ’’منزل بہ منزل‘‘ اسٹیج ہوا۔اِن دنوں آرٹس کونسل الحمرامیں بانو قدسیہ کاڈرامہ کھیلا جا رہا ہے۔ اس کی ہدایات کے فرائض نوجوان ہدایتکار بختیار احمد نے سر انجام دئیے اور اسے پاکستان آرٹس کونسل  کے یرِ اہتمام آربٹ تھیٹر نے پیش کیا۔اداکاروں میں لاہور کے مشہور  اسٹیج اور ٹیلیویژن کے فنکار علی اعجاز، فاروق ضمیر، بختیار احمد اور خالد سعید بٹ شامل ہیں۔ ڈرامہ اپنے انداز کی ایک کامیاب پیشکش ہے اور امید ہے کہ چند خامیوں کے باوجود یہ مزید مقبولیت حاصل کرے گا۔اس کھیل میں طنز کا پہلو اس کی دلچسپی کا باعث ہے۔ کہانی چند کرداروں کے گرد گھومتی ہے جو اپنی ذاتی اغراض کی خاطر اپنی شخصیت پر ملمع چڑھا لیتے ہیں اور پھر ہنس کی چال چلتے چلتے اپنا آپ بھی گنوالیتے ہیں۔ یہی اس ڈر امے کا معاشرے پر طنز ہے اور یہی اس کا مزاح ہے جس پر تماشائی دل کھول کر قہقہے لگاتے ہوئے ایک چبھن سی بھی محسوس کرتے ہیں۔ آربٹ تھیٹر کی پیشکش یقیناً قبولِ عام کی سند حاصل کریگی۔پھر ایک بار جنابِ آغا ناصر کی ہدایات و پیشکش میںلاہورٹیلیویژن سے بانو آپا کا ایک کھیل ’’تیرے لیے‘‘live یعنی براہِ راست نشر کیا گیا تھا۔ اس میں مرکزی کردار ایک بیمار بس ڈرائیور کاتھاجسے میں نے ادا کیا تھا۔ آغا جی سے پہلی ریہرسل کے موقع پر جب میں نے پوچھا کہ کردار کے بارے میں مجھے کچھ بتائیں کس انداز میں آپ چاہتے ہیں تو اُن کی اُس کھیل میں واحد ہدایت یہ تھی،’’بس اداکاری نہیں کرنی‘‘بہت ہی خوبصورت کھیل تھا اور اتنا مؤثّر کہ میرے والدصاحب، اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے ، کھیل کے دوران میں سے ہی نم آنکھوں کے ساتھ ٹی وی کے آگے سے ہٹ گئے تھے۔وہ اپنے بیٹے کو بیماری کی حالت میں بے کار اورالم زدہ دیکھ کر غمناک ہو گئے تھے۔ایک مکالمہ اُس کھیل کا مجھے کبھی نہیں بھولا، بیمار اور بس ڈرائیوری کی ملازمت سے فارغ کیا جا چکا کردار جب بیوی کے چوڑیوں سے خالی ہاتھ دیکھ کر کہتا ہے،’’گھر تو تپے تندور کی طرح دہکتا ہے۔۔۔۔کیا کچھ ڈال دے گی اِس میں!؟‘‘تویہ مکالمہ ریہرسلوں اور نشریے کے دوران میری آنکھیں نم کر دیا کرتا تھا۔آپاں جی ! آپ لکھتی تھیں یا جادو کرتی تھیں؟! اِس کھیل پر جنابِ ’’زینو‘‘(محترم صفدر میر صاحب) کا ریویو(تنقید و تبصرہ) منگل وارمورخہ 17 جون 1969کو ایک انگریزی خبار شائع ہُوا تھا، جو کچھ یوں تھا:۔اتوار کی شام ؍رات پی ٹی وی پر پیش کیا گیا بانو قدسیہ کا کھیل’’تیرے لیے‘‘ (ہدایات وپیشکش: آغا ناصر)اُس المیہ ڈرامے کی عمدہ مثال تھاجو فی اوقت ملک میں ڈھالا جا رہا ہے۔گو یہ کھیل اس منجھی ہوئی لکھنے والی کی بہترین تحریروں میں سے نہیں تاہم ۔۔ٹھہریے کیوں نہ ترجمہ کی بجائے انگریزی ہی میں نقل کر دیا جائے تاکہ جنابِ صفدر میر کے طرزِ تحریر سے بھی لُطف اُٹھایا جا سکے۔Bano Qudsia's play "Terey Liye" on Sunday evening (Production by Agha Nasir) was a fine example of tragic drama as it is being moulded today in the country. Though not of the best of this highly accomplished playwright, it revealed the fantastic richness of detail....in dialogue as well as in action.. ..wihich she can afford for the delineation of her characters.The story of "Tere Liye" is so thin that it can be told in a single sentence. The wife of a worker, out of work because of illness, is sent by him to her parents, but soon returns because she cannot bear separation from him. But, in this simple incident, Bano Qudsia has woven so many details that the woman's going away and her coming back assumed for the audience the meaning of life as it departs and as it comes back to us when our dear ones come and go. This could have been turned into a highly sentimentalised version of working class life. To a degree, perhaps, it is  sentimental. But the whole thing is sustained at a genuinely tragic level, because the author has totally avoided the falsity of the cliche-ridden speech which has invaded television from the direction of the film. She has created her pictures out of a faithfully realistic narrative of the life of the working class. Both her economy and the wealth of poignant details once again reveal her mastery of form.  Atiya Sharaf as the wife, Masud Akhtar as the friend and Bakhtiyar as the husband play their roles with the restraint which the script demanded. It is one of the finest roles that Bakhtiyar has played. The boy, who plays the son, has the makings of a fine actor.کاش اس کھیل کی ریکارڈنگ کی گئی ہوتی !مگر اُن دنوں ابھی لاہور ٹی وی پر ریکارڈنگ کی سہولت موجود نہ تھی‘ اور اگر تھی بھی تو کم کم تھی۔ پی ٹی وی کے آج کے مدارالمہام افسران، جو صرف باتیں کر کر کے ٹرخانے کے ہنر میں کمال رکھتے ہیں اور آج 2020  میں‘ مجھ جیسے باقی ماندہ پر وفیشنلزکو’’پی ٹی وی کے سنہری دور‘‘ کو واپس لانے کے جھانسے دیتے رہتے ہیں، اُن کی خدمت میں ایک یقینی کامیاب پروگرام آئیڈیا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُن کھیلوں ہی کو دوبارہ پروڈیوس کرلیں جو لائیو(live)  ہُوا کر تے تھے!یوں ممکن ہے پی ٹی و ی کے سنہری دور کی جھلکیاں نئی نسل کو نصیب ہو جائیں اور اُن کی کسی حد تک تربیت بھی ہو جا ئے!خیر یہ ایک خیالِ خام ہی ہے کیوں کہ اگر انتہائی منجھے ہوئے اور یقینی ٹیلینٹڈ لوگ پی ٹی وی کے مشیر بنا لیے گئے تو پی ٹی وی پر قابض مافیا نقصان میں چلا جائے گا ۔ جاری ہے

ای پیپر دی نیشن