اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے شجر کاری کیس میں جنگلات اور آبپاشی کے چاروں صوبائی سیکرٹریز کو طلب کرتے ہوئے اسلام آباد انتظامیہ سے بھی ندیوں کے اطراف کی گئی شجرکاری کی تفصیلات طلب کرلیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ عدالت نے درختوں کی کٹائی پر سخت برہمی کا اظہارکیا۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کمراٹ اور سوات میں سارے درخت کاٹ دیئے گئے ہیں۔ نتھیا گلی اور مری میں درختوں کا صفایا ہورہا ہے۔ یہی صورتحال رہی تو پانچ سال بعد کے پی میں سیاحت ختم ہوجائے گی۔ لوگ قدرتی حسن دیکھنے ہی کے پی میں جاتے ہیں۔ درخت کاٹنے سے برفباری بھی بند ہوجائے گی۔ دریائے سندھ کے اطراف بھی کوئی درخت نظر نہیں آتا۔ کچے کا سارا علاقہ سندھ حکومت نے کاشتکاری کیلئے نجی افراد کو دیدیا۔ کچے کی سرکاری زمین پر تو گھنے جنگل ہونے چاہئیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں عدالتی حکم پر دو لاکھ درخت لگائے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ دو دو فٹ کے جو درخت لگائے وہ تو بکریاں کھا جائیں گی۔ کم سے کم چھ فٹ کے درخت لگائے جائیں جن کا اثر بھی ہو۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ سندھ حکومت کو ہدایت کی تھی کہ جنگلات کی زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کرے۔ سندھ حکومت نے قانون بنایا جو الاٹمنٹ ہوچکی وہ برقرار رہے گی۔ دوسرے الفاظ میں سندھ حکومت غیرقانونی الاٹمنٹ کا تحفظ کر رہی ہے۔ سرکاری وکیل نے بتایا کہ بلوچستان میں اب تک چالیس ہزار درخت لگائے ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ درخت صرف کاغذوں میں ہی نہیں لگانے، ایسی بات کریں جس کی ہم مجسٹریٹ سے تصدیق بھی کروا سکیں۔