کہتی ہے تجھے خلق خدا غائبانہ کیا؟

قائداعظم محمد علی جناح کا شمار دنیا کی انتہائی قدآور سیاسی اور سماجی شخصیتوں میں کیا جاتا ہے۔ ایک ایسے وقت جب برّصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمان، ہندو اکثریت اور حکمران انگریز گٹھ جوڑ کے باعث زوال اور مایوسی کے اندھیرے غار میں غلامانہ زندگی گزانے پر مجبور کر دئیے گئے تھے محمد علی جناح نے عزم صمیم سے تحریک پاکستان کو جہد مسلسل سے مہمیز دی اور زبردست بے لوث قومی خدمت سے مملکت خداداد پاکستا ن کو دنیا کے نقشے پر ممکن بنا دیا۔ اُن کی قومی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دنیا کے ایک نامور امریکی مورخ، دانشور مصنف پروفیسر اسٹینلے والپرٹ نے مسلمانانِ ہند کی یکجہتی کو ایک قوم کی شکل میں ڈھال کر عظیم قومی ریاست پاکستان کے بانی ہونے کے حوالے سے قائداعظم محمد علی جناح کو عالمی سیاسی و سماجی شخصیتوں کے مقابلے میں دنیا کی واحد تاریخی سیاسی شخصیت قرار دیتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھا ہے:  
"Few individuals significantly alter the course of history. Fewer still modify the map of the world. Hardly anyone can be credited with creating nation-state. Muhammad Ali Jinnah did all three."
البتہ یہ اَمر انتہائی افسوس ناک ہے کہ پاکستان کی آزادی کے بعد حاصل ہونے والی سہولتوں سے گزشتہ چند عشروں میں قانونی و غیرقانونی فائدہ اُٹھانے کے باوجود حزب اختلاف کی جماعتوں نے پاکستان جمہوری موومنٹ کے نام سے وزیراعظم عمران خان جنہیں اقوام متحدہ اور پاکستانی فورمز پر سچائی کی آواز بلند کرنے پر حقائق کی روشنی میں جناح و اقبال اور آخری پیغمبر اسلام ؐ  کا سچا فدائی ہی کہا جانا چاہیے کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی باگ دوڑ تحریک پاکستان کی کے ایک مخالف کے بیٹے کے سپرد کر دی ہے جو نہ صرف پاکستان مخالف نریندا مودی کی بھارتی حکومت کے چیف سیکیورٹی آفیسراجیت کمار ڈول سے رابطے میں ہیں بلکہ اُنہوں نے سابق نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف اور زرداری صاحب کے دورِ حکومت میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہونے کے ناتے وفاقی وزیر کی سہولتیں حاصل کرکے ذاتی فوائد تو حاصل کئے لیکن عوامی توقعات کے برخلاف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنے کے بجائے اپنی ذات میں ہی مست رہے جسے محسوس کرتے ہوئے بالآخر عوام نے الیکشن 2018 میں اُنہیں اپنی ووٹ کی طاقت سے شکست دی تو اپنی اصلاح احوال کرنے کے بجائے مولانا فضل الرحمن نے میڈیا میں یوم پاکستان منانے کے خلاف ہی بیان دیتے رہے۔ اِ س سے قبل مولانا صاحب متعدد مرتبہ قائداعظم کے خلاف ہرزہ سرائی کے مرتکب ہوئے ہیں اور ماضی قریب میں اُنہوں نے جناح کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔درج بالا تناظر میں اگر مولانا فضل الرحمن اور متحدہ حزب اختلاف کی حکمت بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے حوالے سے کسی غلط فہمی کا شکار ہیں تو اُنہیںنامور سیاسی و سماجی شخصیتوں بشمول ہندو کانگریس کی مشہور سیاسی دانشور مسز سروجنی نائیڈو کی فکر پر ہی ایک نظر ڈالنی چاہیے تھی جن کا کہنا تھا کہ جناح کی جسمانی ناتوانی کے پیچھے ذہن اور کردار کی غیر معمولی قوتیں پوشیدہ تھیں۔مولانا فضل الرحمن شاید نہیں جانتے کہ یوم آزادیٔ پاکستان نے ہی ہمیں دنیا بھر میں نہ صرف قومی شناخت سے ہمکنار کیا بلکہ آزادی کی نعمت کے سبب ہی اغیار کی سازشوں کے باوجود محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ٹیم کی جدوجہد سے پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بھی بن چکا ہے۔ 
یہ درست ہے کہ ماضی میں مولانا فضل الرحمن کی جماعت تحریک پاکستان کے بجائے ہندو کانگریس کی حامی رہی ہے لیکن اِن کے علاوہ دیگر مذہبی جماعتیں بھی ہندو کانگریس کاساتھ دیتی رہی ہیں جن میں مجلس احرار ، متحدہ مجلس عمل وغیرہ بھی شامل ہیں جبکہ تحریک پاکستان کے آخری دور میں 30اگست 1946 میں قیصر باغ ممبئی میں جشن عید کے موقع پر عوام کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے یہ کہتے ہوئے کہ لیکن ہم حقائق سے چشم پوشی نہیں کر سکتے ، ہمارے سروں پر سیاہ بادل کا ایک ٹکڑا منڈلا رہا ہے ، ایسے نازک حالات میں ، میں خاص طور پر جمعیت العلماء ہند ، مجلس احرار ، خاکسار ، اور مسلم مجلس عمل سے اپیل کرتا ہوں کہ اسلام کی فلاح و سربلندی کی خاطر متحد ہو جائیں اور مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہو جائیں ۔ اگر ہم متحد و منظم ہو کر مقابلہ کریں تو مخالفین کی تمام طاغوتی سازشوں کو ناکام بنا دیں گے لیکن مولانا صاحب کی جماعت نے اِس پر کوئی توجہ نہیں کی ۔ البتہ اِس اعلان سے قبل ہی جمعیت کے ایک جید عالم مولانا شبیر احمد عثمانی، قائداعظم کی تحریک کے عزم کو سمجھتے ہوئے پہلے ہی قائداعظم کی حمایت کا اعلان کر چکے تھے جبکہ تحریک پاکستان کے زمانے میں جماعت اسلامی کی داغ بیل مولانا مودودی کی قیادت میں ایک تھنک ٹینک کی حیثیت سے مشہور ہوئی تھی لیکن جماعت اسلامی نے کسی مرحلے پر بھی کبھی ہندو کانگریس کا ساتھ نہیں دیا بلکہ وہ تحریک پاکستان کو اسلامی رنگ و روپ میں دیکھنے کیلئے تحریک پاکستان پر تنقید ضرور تنقید کرتے رہے۔ البتہ قیام پاکستان کے بعد مولانا مودودی پاکستان کی حمایت میں پیش پیش رہے۔ اِسی طرح قیام پاکستان کے بعد مجلسِ احرار کے سربراہ سید عطا اللہ شاہ بخاری نے لاہور کے ایک بڑے جلسہ عام میں یہ کہہ کر اپنی جماعت توڑنے کا اعلان کیا تھا کہ متحدہ ہندوستان کی حمایت اُن کی سیاسی غلطی تھی جبکہ قائداعظم کی وفات پر اُنہوں نے کہا کہ محمد علی جناح ایک عہد آفریں شخصیت تھے ، اسلامی تاریخ میں اُنہوں نے بیش بہا اضافہ کیا ہے جوپاکستان کے نام سے رہتی دنیا تک یادگار رہے گا۔ممتازعالم دین مولانا شبیر احمد عثمانی جن کا شمار جنوبی ایشیا کے جید علماء دین میں کیا جاتا ہے نے برّصغیر جنوبی ایشیا کی تاریخ کوزے میں بند کرتے ہوئے تاریخی الفاظ میں قائداعظم محمد علی جناح کی وفات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان نے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے بعد اتنا بڑا مسلمان پیدا نہیں کیا جس نے جنوبی ایشیا میں مسلمانانِ ہند کی بربادی اور مایوسی کو فتح میں بدل دیا ہو ۔ 
 بلا شبہ قائداعظم گذشتہ صدی کی ایک عظیم شخصیت تھے ۔ وہ قرارداد پاکستان کے نصب العین کے مطابق اسلامی سماجی انصاف کی بنیادوں پر پاکستان کو ایک جدید اسلامی ویلفیئر ریاست بنانا چاہتے تھے جبکہ ہندوسماج کے پیروکار مسلمانوں کی نظریاتی بنیادوں پر مسلسل وار کرکے انہیں ہندوازم میں جذب کرنے کے مشن پر گامزن رہے۔ قائد اعظم برصغیر میں مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کی شناخت سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں تھے ، وہ کسی بھی شکل میں بھارت کے ساتھ کسی دستوری اشتراک، کسی کنفیڈریشن یا فیڈریشن کی تھیوری کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے تاہم وہ برابری کی بنیاد پر بھارت کے ساتھ دوستی اور تعاون کے معاہدوں کے خلاف نہیں تھے۔دسمبر 1943 میں محمد علی جناح نے برطانوی صحافی بیورلے نکولس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ کسی حد تک آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ اسلام صرف مذہبی عبادات یا اعتقادات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل طریق حیات ہے ۔ میں جب مسلمانوں کو ایک قوم کہتا ہوں تو زندگی کے تمام شعبے اور زندگی کی تمام ضروریات میرے پیش نظر ہوتی ہیں ۔ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور ہر اعتبار سے ہماری تاریخ علیحدہ ہے ۔ قائداعظم سے تین گھنٹے کے اِس انٹرویو کرنے کے بعد بیورلے نکولس نے اپنی کتاب میں یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ مسلمانوں کی لیڈرشپ قائداعظم جیسی غیر معمولی شخصیت کے ہاتھوں میں ہونے کے باعث ہندو وانگریز مل کر بھی ہندوستان میں مسلمانوں کی ریاست پاکستان کوبننے سے نہیںروک سکتے اور ایسا ہی ہوا۔ حقیقت یہی ہے کہ کانگریسی لیڈر شپ اکھنڈ بھارت کے ہدف کو یقینی طور پر حاصل کرنے کیلئے قائداعظم کو ہر قیمت پر تقسیم ہند اور مطالبہ ء پاکستان سے ہٹانا چاہتے تھے۔ کانگریسی لیڈر راج گوپال اچاریہ نے تقسیم ہند کے مطالبے سے قائداعظم کو دستبردار کرانے کیلئے اُنہیں کانگریس کی جانب سے مکمل اتھارٹی کیساتھ متحدہ ہندوستان کے وزیراعظم کے طور پر قبول کرنے کا اعلان کیا تھاجبکہ تحریک پاکستان کے آخری مرحلے پر اِسی حربے کو استعمال کرتے ہوئے مہاتما گاندہی نے مکمل اختیارات کیساتھ متحدہ آزاد ہندوستان کے وزیراعظم کا عہدہ قائداعظم کو پیش کرنے کی کوشش کی لیکن قائداعظم نے مسلمانوں کی علیحدہ مملکت سے کم کسی تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور بالآخر تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ قائداعظم محمدعلی جناح اب بھی عوام کے دل و دماغ میں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے اور کوئی مولانا فضل الرحمن ایسی شخصیت عوام کے ذہنوں سے اُنہیں محو نہیں کر سکتی۔

ای پیپر دی نیشن