اسلام آباد (عترت جعفری، نمائندہ خصوصی) وزیر خزانہ شوکت ترین نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے درمیان اعلیٰ سطح کے مذاکرات کامیاب ہوں گے اور 6 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) دوبارہ بحال ہوجائے گی۔ وزیر خزانہ نے واشنگٹن میں مصروف دن گزارا۔ انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں خطاب کیا، ترک وزیر خزانہ سے ملاقات کے علاوہ عالمی بینک کے ایم ڈی سے ملاقات کی۔ امریکا کے انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں خطاب میں کہا کہ پاکستان حکومت کو یقین ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا مطالبہ افراط زر کو ہوا دے گا۔ ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بنیادی مسئلہ کشمیر ہے۔ موجودہ بھارتی حکومت اس کی متنازع نوعیت کو قبول نہیں کررہی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے مابین تجارتی اور معاشی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کو کئی مرتبہ کہا کہ اگر وہ ایک قدم اٹھاتے ہیں تو پاکستان دو قدم اٹھائے گا اور بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ مثبت جواب دے۔ دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی افغانستان میں ایک جامع حکومت چاہتا ہے اور اس کے لیے کوشش کر رہا ہے۔ طالبان کے پاس نقد رقم ختم ہو رہی ہے اور اگر دنیا انسانی بنیادوں پر ان کی مدد کرنے کے لیے نہیں آئی تو مکمل انتشار ہو گا جو کہ پاکستان اور دیگر ممالک میں پھیل جائے گا۔ اگر افغانستان کے حالات خراب ہوئے تو یہ پاکستان کو سب سے زیادہ متاثر کرے گا۔ پاکستان امریکا اور چین سمیت ہر ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتا ہے۔ پاکستان کی امریکا کے ساتھ ’بڑی سٹرٹیجک پارٹنرشپ‘ ہے اور ’ہمیں یقین ہے کہ ہم دونوں طاقتوں کے ساتھ یکساں طور پر کام کر سکتے ہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط پر وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان نے 27 میں سے 26 شرائط پوری کی ہیں اور 27 ویں شرائط بھی آدھی ہے۔ اس صورتحال میں کسی بھی دوسرے ملک کو گرے لسٹ سے نکال دیا جاتا لیکن پاکستان کو کچھ ممالک اقتصادی وجوہات کی بنا پر مختلف وجوہات کی بنا پر سزا دے رہے ہیں۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنے ترک ہم منصب لطفی الوان سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں کا اقتصادی و تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیاگیا ۔ ترکی نے زراعت، تعمیرات اور سیاحت سمیت اہم شعبوں کی ترقی میں معاونت کی پیشکش کی۔ وزیر خزانہ نے واشنگٹن ڈی سی میں پاکستان امریکا بزنس کونسل (USPBC) کی طرف سے راؤنڈ ٹیبل ظہرانے میں شرکت کی۔ وزیر خزانہ نے امریکی کمپنیوں کو سپیشل اکنامک زونز (SEZs) میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور ہرممکن تعاون کا یقین دلایا۔ پاکستانی وفد نے واشنگٹن میں ورلڈ بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر ایکسل وین ٹراٹسن برگ سے ملاقات کی۔ وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک نے واشنگٹن میں اجلاس میں شرکت کی۔ ورلڈ بینک نے حکومت کی معاشی اصلاحات کی کوششوں کو بھی سراہا۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اعلی سطح کا پہلا رابطہ آج ہو گا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے مذاکرات کے لئے جو حکمت عملی تیار کی ہے یہ تین نکات پر مبنی ہے جس میں آئی ایم ایف کی جانب سے ریونیو بڑھانے کے مطالبات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اس میں آپشن ون میں اصولی طور پر اتفاق کیا گیا ہے کہ سیلز ٹیکس کا سٹیندرڈ ریٹ جو17 فی صد ہے لاگو کیا جائے‘ گا اور ایگزامشنزختم کر دی جائیں تاہم ایسے تمام اقدامات بجٹ میں اٹھائے جانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ ایک تجویز کے مطابق انکم ٹیکس میں اعلی تنخواہ دار اور کاروباری طبقات کے لئے انکم ٹیکس کی سلیب میں انکم ٹیکس کے ریٹ میں اضافہ کر دیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ان تینوں آپشن پر بات ہو گی اور اسے پہلے مرحلہ میں کم مشکل آپشن پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس وقت سیلز ٹیکس کی مد میں 330ارب روپے کی رعایات موجود ہیں، زیرو ریٹنگ ہے اور موبائل فون پر رعائتی شرح سیلز ٹیکس اور بعض دیگر اشیاء پر بھی سیلز ٹیکس کی شرح 17فی صد سے کم رکھی گئی ہے، کھانے پینے کی اشیاء پر بھی سیلز ٹیکس کی شرح کم ہے یا ان پر استثنی ہے۔ ذرائع نے کہا کہ آئی ایم ایف سے قرض کے ایک ارب ڈالر کے اجراء اور قرضہ پروگرام کو بحال کرانے کے لئے جس آپشن پر اتفاق ہو گا اس کے مطابق ایک دو ہفتوں میں اقدامات کرنا ہوں گے۔ کیونکہ یہ قرضہ پروگرام کے بورڈ میں جانے سے قبل ’’پرائر ایکشن‘‘ کے زمرے میں آئیں گے۔ ان کے نفاذ کا ایک طریقہ آر ڈی نینس کا نفاذ ہے جس کی تیاری کا ٹاسک دیا گیا ہے جو مذاکرات کے نتائج کی روشی میں جاری ہو گا۔ سیلز ٹیکس کی زیرو ریٹنگ یا رعائتی شرحوں کے خاتمہ سے مجموعی طور پر 330ارب کا بوجھ صارفین تک جا سکتا ہے ۔