اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) وزیردفاع خواجہ آصف نے وزیراعظم شہباز شریف کے بیرونی دوروں کو سود مند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ ساڑھے3 برسوں میں خراب ہونے والا ملکی تشخص اب بہتر ہوا ہے۔ جمعہ کو وزیراعظم ہائوس میں وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال، وزیراطلاعات مریم اورنگزیب، معاونین طارق فاطمی، مصدق ملک اور عطاء اللہ تارڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف سکیورٹی سے متعلق اہم اجلاس میں شریک ہیں اس لیے میڈیا سے بات کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی گزشتہ 4 ماہ کے دوران 40 سربراہان مملکت کے ساتھ ملاقاتیں ہوئی ہیں اور اس سے گزشتہ ساڑھے 3 برسوں کے دوران ملک کا جو تشخص کچھ خراب ہوا تھا وہ تاثر قطعی طور پر رد ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض سربراہان مملکت سے وزیراعظم کی تین یا 4 مرتبہ ملاقاتیں ہوئی ہیں، جس سے بھی مثبت اثرات پڑے اور جہاں تعلقات خراب ہوئے تھے، بڑی حد تک بہتر ہوئے ہیں، جن میں ہمسایہ، مشرق وسطی، وسطی ایشیا اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ قازقستان میں بھی وہاں موجود تقریبا تمام رہنمائوں سیملاقاتیں ہوئیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز اور اس سے پہلے مریم نواز کی بریت کے حوالے سے چند حلقوں کی جانب سے سوالات اٹھائے گئے تو ہم نے پچھلے 4 سے 5 سال میں اپنے قول اور فعل سے ثابت کیا ہے کہ پاکستان کے عدلیہ کے نظام کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتے اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی جانب سے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے لے کر اب تک وزیراعظم کی حیثیت سے شہباز شریف عدالتوں میں پیش ہور ہے ہیں اور یہ فیصلے عدالتوں نے دیے ہیں، چاہے شہباز شریف، حمزہ شہباز یا مریم نواز کا فیصلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلے گوگی کی طرح دفتروں میں بیٹھ کر نہیں ہوئے یا دفتروں میں بیٹھ کر احتساب کمیشن بند نہیں کیا گیا، بی آر ٹی، مالم جبہ یا بلین ٹری سونامی کی طرح کیسز بند نہیں کیے اور ہم پورے عمل سے گزرے اور جیلوں میں گئے، ضمانتیں ہوئیں۔ وزیردفاع نے کہا کہ ہم نے ملک کے عدلیہ اور قانونی عمل کو عزت دی لیکن یہ لوگ رو رہے ہیں اور بندے پکڑے جاتے ہیں تو ایسی باتیں کرتے ہیں کہ وہ پھر میڈیا کے سامنے نہیں آسکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عمل پر تنقید کرنا اور یہ کہنا کہ فلاں نے فون کیا اور فلاں نے کہا تو فیصلہ ہوا غلط ہے اور یہ ایک شخص کے ذاتی غصے کا نتیجہ ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کا نام لیے بغیر ان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ میرے استاد رہے ہیں اور قانون دان ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کو چھوڑنے والا یہ پہلا شخص تھا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ 1977 میں 6 ماہ پہلے ہی دھاندلی زدہ الیکشن میں رکن صوبائی اسمبلی بنے تھے اور اس وقت سے انہوں نے غداری شروع کی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے 200 پیشیاں بھگتیں اور مریم نواز نے بھی تقریبا اتنی پیشیاں بھگتی ہیں، ان کی بریت کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں ہے، ہم قانون، عوام اور اپنے حلقوں کی نظروں میں سرخرو ہوئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کابینہ کے اجلاس میں ایک بند لفافہ لہرا کر منظوری حاصل کی، کسی کو نہیں پتا تھا کہ اس میں کیا ہے لیکن ان کی منظوری ہوگئی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ یہ بندہ نالائقی کی آخری حدوں پر چلا گیا ہے، اسی عمارت میں کہتا رہا ہے ایک پیج پر ہیں، کوئی فیصلہ ایسا نہیں لیتا جس کی پنڈی کے ساتھ مکمل اتفاق نہ ہو، فیصلے میں لیتا ہوں جس کی میں ذمہ داری لیتا ہوں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت عمران خان کہتا تھا کہ ٹیپنگ اچھی بات ہے اور اب ٹیپیں آئی ہیں تو چیخیں مارنے لگے ہیں، پاکستان کے عوام کے اجتماعی شعور کی اس طرح توہین نہیں کی جاسکتی، پاکستان کے ووٹر کے ذہانت اور شعور کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ انتخابات آئین کے مطابق وقت پر ہوں گے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق وقت پر انتخابات ہوں گے، اگر اس سے قبل انتخابات کا فیصلہ کیا تھا شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم کی حکومت فیصلہ کرے گی اور وہ کسی دبائو کے نتیجے میں نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق وقت سے پہلے انتخابات ہوسکتے ہیں لیکن اس کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ہے اور عوام کو ریلیف ملے گا جو ہم پر عوام کا قرض ہے۔ عام انتخابات کے حوالے سے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ دو صوبے سندھ بلوچستان ایسے ہیں جہاں اگلے 6 سے 8 مہینے تک عام انتخابات کا سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ وہاں اس وقت سب سے بڑا مرحلہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مارچ یا اپریل تک ان کی بحالی کے عمل میں مصروف ہیں تو مارچ تک نئی مردم شماری کے اعداد وشمار آئیں گے اعتزاز احسن کی جانب سے آرمی چیف کے خلاف بیان پر آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی سے متعلق سوال پر انہوں نے صحافی کو جواب دیا کہ ہم آپ کی فرمائش پر تو کام نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک شخص جس کی سیاسی اہمیت اتنی رہ گئی تو اس کو زبردستی سیاسی طور پر زندہ کرلیا جائے تو وہ بھی سیاسی طور پر درست بات نہیں ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ جہاں انہوں نے آرمی چیف اور ان کے ملوث ہونے کا نام لیا ہے تو اس پر بالکل کچھ نہ کچھ کارروائی ہو گی، جب ان سے سوال کیا گیا کہ پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف تو کارروائی ہو رہی ہے لیکن اعتزاز احسن نے وہی کہا تو کیا ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا؟ تو خواجہ آصف کا کہنا تھا ہم توازن کی کوشش کریں گے۔ ایک اور سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ مختلف صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومتوں کے خلاف جب مناسب سمجھیں گے اس وقت جیسے وفاقی حکومت کو عدم اعتماد سے برطرف کیا تھا تو دیگر کے خلاف بھی کام ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بھی موقع ملے گا اس کو استعمال کیا جائے گا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ اگر قبل از وقت الیکشن کا فیصلہ ہوا تو وہ شہبازشریف کی حکومت خود کرے گی اور کسی دباؤ میں آئے بغیر کرے گی۔