حیدرآباد(بیورو رپورٹ )سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ،جسٹس احمد علی شیخ نے کہا ہے کہ منتخب نمائندوں کو یہ احساس ہوا کہ ان کا پانچ سال بعد احتساب ہو گا تو صورتحال مختلف ہو گی ،سندھ کا انفرا اسٹیکچر تباہ ہو چکا ہے اسکا سبب قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ بیڈ گورننس بھی ہے،سوموٹو لینے کے اختیارات عدالت ِ عظمیٰ کے پاس ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن حیدرآباد میں بار روم،کیفے ٹیریا ،کی تزائین و آرائش اور ڈیجیٹل لائبریری کے افتتاحی کی تقریب سے خطاب کرتے ہو ئے کہی اس موقع پر ہائی کورٹ کے دیگر ججز کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن حیدرآباد کے صدر غلام اللہ چانگ ،جنرل سکریٹری الطاف سچل اعوان سمیت دیگر عہدے داران بھی موجود تھے ۔ہمارے یہاں جواب دہی کا احساس ختم ہو تا جارہا ہے اگر کسی بھی منتخب نمائندے کو یہ احساس ہو کہ اسکا پانچ سال بعد احتساب ہو گا تو صورتحال مختلف ہو جائیگی،سندھ کا انفرا اسٹیکچرتباہ ہوچکا ہے اسکا سبب قدرتی آفات کے علاوہ بیڈ گورننس بھی ہے۔عوام اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرتے ہیں۔باشعور افراد ہر جگہ موجود ہیں اب وہ زمانہ نہیں ہے جب خط آئے تو گاﺅں سے لوگ شہر آکر اسے پڑھوائیںشہروں میں ہی نہیں اب دیہاتوں میں بھی پڑھے لکھے لوگ مل جاتے ہیں۔سو موٹو نوٹس لینے کا اختیار عدالت عظمیٰ کے پاس ہے عدلیہ انتظامیہ کا کام نہیں کرسکتی حکومت کے اپنے کام ہیں اور عدلیہ کے اپنے ہیں عدالتوں کے تواز ن کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔عدلیہ کا بنیادی کام قانون کی تشریح کرنا اور پارلیمینٹ کا کام قانون سازی کرنا ہے انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہو ئے کہاکہ عوام اپنے حقوق کے حوالہ سے اپنے منتخب کردہ نمائندوں سے سوال کریں تاہم جو معاملہ بھی اعلی ترین عدالت میں زیر التوا ہے اس پر بات نہیں کی جاسکتی۔میں کوئی سیاسی آدمی نہیں ہوں کہ عوام کو پیغام دوں تاہم انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے ہر شخص کو انصاف ملنا چاہیے۔
جسٹس احمد علی