سیلاب متاثرین کی بحالی، فوڈ سکیورٹی جیسے بڑے مسائل کا سامنا ہے،جولین ہارنس


اسلام آباد (نا مہ نگار)خوراک کے عالمی دن کے حوالے سے پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس میں ایک تقریب منعقد ہوئی جسکا اختتام اس اتفاقِ رائے پر ہوا کہ پاکستان کو سیلاب متاثرین کی بحالی، فوڈ سیکیورٹی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے بڑے مسائل کا سامنا ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ ان مسائل  کے بارے میں آگاہی اور انکو حل کرنے کی کوششوں اور اشتراک سازی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تاکہ بہتر پیداوار، بہتر غذائیت، بہتر ماحول اور ایک خوشحال زندگی تک ہر کسی کی رسائی ہوسکے اور کوئی بھی پیچھے نہ رہے۔اس تقریب کا انعقاد عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کی جانب سے ورلڈ فوڈ پروگرام، یونیسکو، یواین ویمن ، یونیڈو، انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچر ڈویلپمینٹ اور منسٹری آف فوڈ سیکیورٹی اور ریسرچ کے اشتراک سے کیا گیا تھا۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پا کستان میں اقوام ِ متحدہ کے ریزیڈینٹ کوآرڈینیٹر جولیئن ہارنس نے خوراک اسکی ہماری زندگیوں اور ہر خوشی، غمی کے موقع پر اسکی اہمیت پر بات کی۔ تاہم انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہمارے اردگرد بہت سے لوگوں کو وافر مقدار میں خوراک میسر نہیں۔ خصوصا سیلاب اور اس سے آنیوالی تباہی کے تناطر میں غذا اور غذائیت کی قلت کے خطرے کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دن ہم بطور ایک قوم کے یہ عہد کرسکتے ہیں کہ ہم خوراک کے بے جا ضیاع سے بچیں۔ نا صرف گھریلو سطح پر بلکہ خوراک کی پیداوار، برداشت اور محفوظ کرنے کے طریقوں میں بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص جب ہم سیلاب زدہ علاقوں اور لوگوں کی بحالی پر کام کررہے ہیں تو موثر اور با اثر غذائی نظاموں کا قیام ان کوششوں کا حصہ ہونا چاہیئے۔ظفر حسن ، سیکرٹری منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اور ریسرچ  نے وزارت کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی عالمی سطح پر محسوس ہوگی کیونکہ پاکستان چاول اور کاٹن برآمد کرنے والے ممالک میں نمایاں ہے اور سیلاب سے یہ دونوں فصلیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی معاشی ترقی میں زراعت کا ایک اہم حصہ ہے ۔ فی الحال ہمیں فوڈ سیکورٹی ، متوازن اور قابلِ استطاعت خوراک کی فراہمی اور اس تک رسائی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اسکے حل کے لئے ہمیں فنڈز درکار ہیں تاکہ ہم کسانوں کی فصلوں اور مال مویشیوں کے ہونے والے نقصان کا ازالہ کر سکیں۔ منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اور ریسرچ اس سلسلے میں ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ کسانوں کی مدد اور زراعت کی ترقی کے لئے حکومت کسان دوست پالیسیاں بنا رہی ہے، بیجوں کی فراہمی کے نظام کی بہتری، زرعی آلات و مشینری کا فروغ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ پلیٹ فارمز کا قیام اور برداشت اور بعد از برداشت نقصانات میں کمی لانا کچھ اور اقدامات ہیں۔ انہوں نے تکنیکی معاونت کی فراہمی اور زرعی پالیسیوں کی تشکیل اور ان پر عملدرامد کرانے میں مدد پر عالمی ادارہ خوراک و زراعت کا بھی شکریہ ادا کیا۔ تقریب کا اختتام ڈاکٹر غلام محمد علی ، چیرمین پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کی جانب سے شکریہ کے اظہار اور غذا اور اسکی ہماری زندگی میں اہمیت کے مرکزی خیال پر مبنی ایک تصویری نمائش کے افتتاح پر ہوا۔ تصویری نمائش تین دن تک جاری رہے گی اور داخلہ ہر ایک کے لئے مفت ہے۔تقریب میں متعلقہ حکومتی افسران ، عالمی برادری، اقوام ِ متحدہ اور اسکے ذیلی اداروں ، میڈیا، طلبہ اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ۔

ای پیپر دی نیشن