بجلی بریک ڈائون کے اصل محرکات کی تلاش


لندن کے جنوب میں واقع ایک مقام نیو انگٹن میں ایک لوہار کے بیٹے کو پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن لوہار تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے قابل نہیں تھا۔لوہار کابیٹا جب چودہ برس کا ہوا تو باپ نے اسے ایک جلد ساز کی شاگردی کروادی تاکہ وہ کام سیکھ لے اور کچھ آمدن بھی ہوجائے۔کچھ دن جلد سازی کاکام کرنے کے بعد لڑکے کی دلچسپی بڑھنے لگی کیونکہ جلد کے لئے جوکوئی بھی کتاب دے کرجاتا لڑکا اسے دن رات ایک کرکے پڑھ لیتا،آہستہ آہستہ اس کوسائنسی کتابیںاور رسائل پڑھنے کا شوق پیدا ہوگیا ۔لڑکپن سے جوانی تک یہی سلسلہ جاری رہا پھر اس نے اپنے شوق کو پورا کرنے کے لئے لندن کے ایک شاہی ادارے میں سائنسی لیکچر سننے کے لئے جانا شروع کر دیا۔ایک دن وہاں اس کی ملاقات مشہور سائنس دان ’’سرہمفری ڈیوی‘‘ سے ہوگئی۔ سر ہمفری ڈیوی کوملاقات میں اندازہ ہوگیاتھاکہ ایک نہ ایک دن یہ نوجوان سائنس میںضرور کوئی کارنامہ کرے گاچنانچہ انھوں نے نوجوان کو شاہی ادارے میں اپنے ساتھ بطور لیبارٹری اسسٹنٹ کام کرنے کی پیشکش کی تواس نے بڑی خوشی سے قبول کر لی اورکیمیا کے شعبہ میں مشہور سائنس دان کے ساتھ مل کرتجربات کرناشروع کر دیئے۔سن 1823ء میں اس نوجوان نے مائع کلورین گیس تیار کرلی اور ایک بڑا سائنس دان بن گیا۔ جلد ساز سے نامورسائنس دان بننے والے اس نوجوان کانام ’’مائیکل فیراڈے ‘‘ہے۔
مائیکل فیراڈے نے بجلی سمیت کیمیا کے میدان میں بہت سی اہم دریافتیں کیں۔ کلورین گیس کی تیاری کے اگلے ہی سال اس نے ایک کیمیائی مادہ ’’بینزین‘‘ دریافت کیا اس نے ایک ایسا شیشہ بھی ایجاد کیا جس میں سے حرارت نہیں گزر سکتی تھی۔سن1820 ء میںجب فیراڈے نے ڈنمارک کے ایک سائنس دان کے بارے میں سناکہ برقی رو سے مقناطیسی قوت پیدا کی جاسکتی ہے تو اس نے اپنی توجہ بجلی کی طرف مرکوز کرلی۔ اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ جس طرح برقی رو سے مقناطیسی قوت پیدا کی جاسکتی ہے، اسی طرح مقناطیسی قوت سے برقی رو بھی پیدا کی جا سکتی ہے چنانچہ اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے تحقیقی کام شروع کر دیا۔ اس سے قبل فیراڈے نے بجلی اور مقناطیسیت کو استعمال کرکے بجلی سے حرکت پیدا کرنے کا طریقہ بھی دریافت کرلیا تھا۔ فیراڈے نے سن 1830ء میں بجلی کی پہلی موٹر تیار کی پھر اس نے سن 1831ء میں تجربات کے بعد یہ معلوم کر لیا کہ جب کسی مقناطیس کے قطبین کے درمیان کسی تار کو حرکت دی جائے تو برقی رو پیدا ہوتی ہے۔ فیراڈے کی ان دریافتوں نے بڑے پیمانے پر برقی رو پیدا کرنے کا راستہ کھول دیا تھا۔آج کے دور میں بجلی گھر میں بجلی پیدا کرنے والے بڑے بڑے جنریٹر فیراڈے کے وضع کردہ اصولوں کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں ۔مائیکل فیراڈے اگر بجلی کی حقیقت بیان نہ کرتا تو شائد دنیا آج بھی اندھیروں میں ڈوبی ہوتی۔ مائکل فیراڈے نے باقاعدہ تعلیم حاصل کئے بغیر بجلی ایجاد کرلی لیکن ہم ملکی ضروریات کے مطابق بجلی کی پیداوار کو بڑھانے سے قاصر ہیں۔ 
ابھی چند روز قبل بین الاقوامی میڈیا پربنگلہ دیش میں ہونے والے بجلی کے بڑے بریک ڈاون کی خبریں گردش کررہی تھیں کہ گذشتہ روزپاکستان میں بھی بجلی کا بڑا بریک ڈاون ہوگیا جس کی وجہ اب تک کی رپورٹس کے مطابق نیشنل گرڈ اسٹیشن میں فنی خرابی بتائی جارہی ہے۔بجلی کا طویل بریک ڈاون حادثہ ہے یا فنی خرابی یا غفلت؟ اصل وجوہات حکومت کی قائم کردہ چار رکنی انکوائری کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد سامنے آئے گی۔پچھلے سال بھی ملک میں اسی طرح بجلی کا بڑا بریک ڈاون ہوا تھا جس کی ابتدائی وجہ فنی خرابی بتائی گئی جبکہ بعدازاں گدو بیراج کے سات اہلکاروں کو فرائض میں غفلت برتنے پر معطل کردیا گیا تھا۔ملک میں متعدد بار بجلی کے بڑے بریک ڈاون کے وقعات ہوچکے ہیںاس کے باوجودبجلی بریک ڈاون کی بنیادی وجوہات کو ختم نہیں کیا جاسکا اور نہ ہی بریک ڈاون کی صورت میںکوئی موثر بیک اپ پلان موجود ہے۔حالیہ بریک ڈاون سے ملک کوکتنا معاشی و اقتصادی نقصان ہوا ہے اس کے اعدادوشمار جلد ہی سب کے سامنے آجائیں گے ۔حکومت کو چاہئے کہ بجلی کے نئے منصوبے شروع کرنے کے علاوہ ملک میں سولر ٹیکنالوجی کو فروغ دیتے ہوئے ہر گھر کوسولر فراہم کرنے کی پالیسی تیار کرے تاکہ اس بحران سے نجات مل سکے۔ 

ای پیپر دی نیشن