وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ میں آئندہ نسلوں اور خطے میں خوشحالی کے لیے اپنے پیچھے امن اور ترقی کی میراث چھوڑنا چاہتا ہوں۔ خطے میں خوشحالی اور امن کے لیے بھارت کے ساتھ مشروط بات چیت کے لیے تیار ہوں۔ بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ اب یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے ضروری اقدامات کرے۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و بربریت کے خاتمے تک امن کے قیام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ جمعرات کے روز قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ’’ایشیا میں روابط کے فروغ اور اعتماد سازی کے اقدامات‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’سیکا‘‘ کے چھٹے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بھارت نے سات دہائیوں سے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو غصب کر رکھا ہے جو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں کشمیری عوام کو دیا گیا ہے۔ دنیا بھارت کے جمہوری چہرے کے پیچھے چھپے حقائق کو دیکھے۔ بھارت کو اپنی اقلیتوں، ہمسایوں، خطے کے امن اور ترقی کے لیے مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے وسائل مختص کرنا ہوں گے۔
وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے قازقستان میں منعقدہ کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا اور بھارت کیساتھ مشروط مذاکرات کی پیشکش کی ہے وہ درحقیقت ہماری کشمیر کے حوالے سے دیرینہ قومی پالیسی ہی کی آئینہ دار ہے جس کی بنیاد کشمیری عوام کے حق خودارادیت پر ہے اور جس کی تصدیق و حمایت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی درجن بھر قراردادوں کے ذریعے کی ہے۔ اقوامِ متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو لے کر جانے والی خود بھارتی قیادت ہی ہے لیکن اقوامِ متحدہ نے اس مسئلہ کے حل کے لیے جو قراردادیں منظور کر رکھی ہیں‘ بھارتی حکومت خود ان پر عمل درآمد سے گریزاں ہے۔
پاکستان نے روزِ اوّل سے ہی بھارتی قیادت کو مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ اس ضمن میں مذاکرات کا ڈول بھی ڈالا گیا لیکن بھارتی حکومت ہی نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کی میز اُلٹ دی۔ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف اور میاں نواز شریف کے ادوار میں بھارت کے ساتھ سلسلہ جنبانی شروع کیا گیا لیکن ہر بار بھارتی سرکار کی بدنیتی کے باعث یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور یوں مسئلہ سات دہائیوں سے متنازعہ چلا آ رہا ہے۔
بھارت کے ساتھ دیگر شعبوں اور تجارت کی راہ میں بھی یہی مسئلہ حائل ہے۔ اگست 2019ء میں جب بی جے پی کی حکومت نے نریندر مودی کی سربراہی میں اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کی تکمیل میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرتے ہوئے اسے بھارتی یونین میں شامل کرنے کی مکروہ کوشش کی تو پاکستان نے اس پر شدید احتجاج کرتے ہوئے بھارت سے ہر نوع کی تجارت پر پابندی عائد کر دی اور کشمیر کی سابقہ آئینی حیثیت کی بحالی تک یہ پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔
بھارتی حکومت ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں کھیل رہی ہے جو ہندوتوا کے باطل نظریہ کے تحت پورے بھارت کو ہندوئوں کی ریاست بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے ان عزائم کی تکمیل کی خاطر بھارت میں موجود اقلیتوں پر ہر ظلم روا رکھے ہوئے ہیں۔ وہ وہاں کی اقلیتوں کو جبراً ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کر رہے ہیں اگرچہ مسیحی اور سکھ بھی ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں ہیں لیکن مسلمان ان کی مشقِ ستم کا خصوصی نشانہ بنے ہوئے ہیں، وہ مسلمانوں کی تمام انسانی آزادیاں سلب کیے ہوئے ہیں۔ مساجد کو مندروں میں منتقل کر رہے ہیں اور ان کے لیے آگے بڑھنے کے تمام راستے مسدود کر دئیے ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں نے اپنی اسی سوچ کے تحت غیر قانونی طور پر قبضہ شدہ کشمیر کے عوام کو بھی اپنا غلام بنانے کے لیے بہیمانہ کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ ریاست میں 9 لاکھ فوجی تعینات ہیں جو کشمیری عوام پر عرصۂ حیات تنگ کئے ہوئے ہیں۔ کشمیری عوام کو ہر انسانی حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ نوجوان کشمیریوں کو کسی جرم کے بغیر پکڑ کر لے جاتے ہیں اور اپنی غیر قانونی حراست میں رکھتے ہوئے ظلم و تشدّد کا نشانہ بناتے ہیں۔ حال ہی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گجرات جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے یہ بے بنیاد اور گمراہ کن دعویٰ کیا کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو چکا ہے ، کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور اب یہ کوئی مسئلہ نہیں رہا، پاکستان نے مودی کی اس بڑ کا فوری طور پر نوٹس لیتے ہوئے اس کے دعوے کو مسترد کر دیا اور قرار دیا کہ یہ دعویٰ محض جھوٹ پر مبنی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ وہ عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں اسے ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑے گا۔
پاکستان کی ہر حکومت نے عالمی فورمز پر کشمیر کے مسئلہ کو اجاگر کیا اور بھارت کے لایعنی دعوئوں کی نفی کرتے ہوئے انہیں باطل قرار دیا۔ پاکستان اپنے اصولی موقف پر آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح پہلے دن سے تھا کہ مسئلہ کشمیر کا حل کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت میں ہے جس کی اقوامِ عالم نے بھی تائید و حمایت کی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں اس کا بین ثبوت ہیں۔ ان قراردادوں سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کا کوئی بھی حل قابلِ قبول نہیں ہے۔
آج جس ا کیسویں صدی میں ہم رہ رہے ہیں کوئی بھی قوم محض جبر، دھونس یا طاقت کے زور پر کسی قوم کو اپنا غلام نہیں بنا سکتی۔ کشمیری عوام کی جدوجہد اور قربانیاں اس حقیقت کی شاہدِ عادل ہیں کہ بھارتی حکومت کی تمام تر انتقامی کارروائیوں، ظلم ، جبر اور دہشت گردی کے باوجود کشمیری عوام اپنی آزادی کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت بھی انہیں ان کے اس حق سے محروم نہیں رکھ سکتی۔ بھارتی قیادت کو اب نوشتہِ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر اب محض دو ملکوں کے درمیان تنازعہ نہیں رہا یہ خطے کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ علاقائی اور عالمی امن اب اس مسئلہ کے حل سے مشروط ہے جب تک یہ مسئلہ حل طلب رہے گا امن کو خطرات لاحق رہیں گے لہٰذا یہ اقوامِ عالم کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ امن کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے بھارت پر دبائو ڈالیں کہ وہ یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے۔ اپنی ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر سنجیدہ طرزِ عمل اختیار کرے تاکہ دونوں ایٹمی طاقتوں میں پرامن بقائے باہمی کی فضا جنم لے سکے اور غربت ، جہالت اور پسماندگی میں ڈوبے یہ دو ہمسایہ ممالک ترقی و خوشحالی کی حسین شاہراہ پر گامزن ہوسکیں۔