قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہونے والی دو روزہ سیکا کانفرنس کا اصل نام "Conference on Interaction and Confidence Building Measures in Asia(CICA)
" ہے. بانی ارکان میں شامل ہے. اس تنظیم کی بنیاد 1992 میں رکھی گئی تھی. 27 ممالک اس تنظیم کے ارکان میں شامل ہیں. سیکا کا چھٹا دو روزہ اجلاس 12 اور 13 اکتوبر کو آستانہ میں ہوا.سیکا تنظیم کے "ایشیا میں تعاون اور اعتماد سازی کے اقدامات" کیلیے 11 ممالک کے سربراہان بشمول ایرانی صدر کی شرکت سے آستانہ شہر کی میزبانی میں انعقاد کیا گیا ۔قازقستان صدر "قاسم جومارت توکایف" کی سربراہی میں کانفرنس کا انعقاد کیا گیا. محکمہ خارجہ کے ترجمان کے مطابق سیکا تنظیم کے چھٹے اجلاس میں 11 ممالک بشمول ایران، روس، ترکی، پاکستان، قطر، عراق، ازبکستان، کرغیزستان، جمہوریہ آذربائیجان، فلسطین اور تاجکستان کے سربراہان نے شرکت کی ۔نیز چین کے نائب صدر اور ویتنام کے نائب صدر نے بھی الماتی میں سیکا سربراہی اجلاس میں شرکت کی ۔اس ایشیائی تنظیم کے بعض رکن ممالک وزارتی سطح پر بھی شریک ہوئے ۔سیکا، تعاون کو مضبوط بنانے کا ایک بین الاقوامی فورم ہے جس کا مقصد ایشیا میں امن، سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانا ہے.سیکا روابط کے ذریعے ایشیا میں اقتصادی تعاون اور سلامتی کو نئی جہت ملے گی۔ایشیا میں تعامل اور اعتماد سازی کے اقدامات کو فروغ ملے گا. کانفرنس سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ بین الاقوامی دنیا کوعالمی مہنگائی اور موسمیاتی تبدیلی جسے بڑے بحرانوں کا سامنا ہے۔جسکی وجہ سے بڑی معیشتیں شدید مندی کا شکار ہیں۔عالمی تجارت سمیت سرمایہ کاری بری طرح سے متاثر ہے۔ایسی صورتحال میں ایسے ممالک اپنی بقا کی جنگ سمیت اپنی معیشتوں میں استحکام لانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور بین الاقوامی دنیا میں ممالک کو مضبوط سہاروں کی اشد ضرورت ہے جس کا سہارالے کر یہ ممالک اپنے مسائل حل کر سکیں۔ایسے میں عالمی اور علاقائی تعاون کی تنظیموں کا موثر کردار ہے،جہاں ممالک اپنے داخلی و خارجی معاملات میں جدت استوار کرنے کیلئے نئے راستے تلاش کر سکتے ہیں۔
ایسے ہی علاقائی ممالک میں موثر رابطوں کے فروغ اور اعتماد سازی کی تنظیم (سیکا) بھی موجود ہے۔جسکی بنیاد ایشیائی ممالک میں امن سلامتی اور استحکام کے فروغ کے مقصد سے رکھی گئی تھی۔ علاقائی ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی اور مستقبل میں اس کے پیش نظر ان چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کیلئے غذائی تحفظ کیلئے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے ۔یقیناً ا س صورتحال میں وزیراعظم کی جانب سے علاقائی ممالک کے سربراہان مملکت کواچھے مستقبل کی بقاء کیلئے ایک موثر حکمت عملی پیش کرنے کیلئے کلیدی کردار ادا کیا گیا ہے۔دنیا اسوقت پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نبڑنے کے تجربے سے سیکھنا چاہتی ہے۔اور دنیا ہماری صلاحیتوں کی بھی معترف ہے۔ پاکستان میں ہونے والی تباہکاریوں اور بحالی کیلئے ضروری کارروائیوں کے بارے میں آگاہ کیا۔اپنے خطاب میں وزیراعظم نے بھارت سمیت خطے کے تمام ممالک کے ساتھ خوشحال تعلقات استوار کرنے کی امید ظاہر کی۔جبکہ انہوں نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی سلوک کی پامالیوں اور ظلم و تشدد کی روک تھام سے مشروط کیا. سیکا کے رکن ممالک کو ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شمولیت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ خطے اور علاقائی استحکام کا ضامن ہے۔حکومت پاکستان کی ون روڈ ون بیلٹ منصوبے میں ایشیائی ممالک کو شامل کرنے سے خطے میں خوشحالی و استحکام آئے گا۔ اور یہ اقدام اس امر کا مظہر ہے کہ پاکستان ترقی اور رابطوں کے فروغ کے اس سفر میں تمام ممالک کو حصہ بنانا چاہتا ہے۔پاکستان ہمیشہ سے امن کا داعی رہا ہے. بین الاقوامی سطح پر امن،سلامتی او ر استحکام لانے کے اس نظریے کے تحت ہر سو خوشحالی پھیلے گی۔
پاکستان سیکا کانفرنس کے ذریعے دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کیلئے موثر کارروائیوں کی ضرورت، توانائی،تجارت،سرمایہ کاری سمیت دوسرے اہم علاقائی و بین الاقوامی معاملات میں دوطرفہ باہمی تعاون کے فروغ کیلئے عالمی دنیا کی توجہ مبذول کروانے میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے۔ حکومت علاقائی ممالک کے ساتھ روابط بڑھا کر ہی ملکی معیشت میں استحکام لا سکتی ہے۔فی الحال موجودہ حکومت نے وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے لانے کیلئے نمایاں کارروائیاں کیں ہیں جن کے دوررس نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔سیکا کانفرنس میں وزیراعظم نے علاقائی اور عالمی مسائل پر پاکستان کا نقطہ نظر اچھے طریقے سے اجاگر کیا اور سیکا رکن ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں ۔انھوں نے واضح کیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نقصانات نے مربوط کوشش کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔دنیا کو توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کساد بازاری کا سامنا ہے، سیکا ایشیا میں امن، سلامتی اور سماجی و اقتصادی ترقی کو فروغ دینے پر توجہ رکھتا ہے.شہباز شریف نے آستانہ میں تاجکستان کے صدر امام علی رحمٰن اور بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو سے ملاقات کی اور انہیں پاکستان میں سیلابی صورتِ حال کے بعد بحالی کے کاموں سے آگاہ کیا۔انھوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا. تاجک صدرامام علی رحمٰن نے وزیرِ اعظم کو تاجکستان کی جانب سے مسلسل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ شہباز شریف نے سمرقند میں ایس سی او سربراہی اجلاس کے موقع پر تاجک صدر سے ملاقات کا ذکر بھی کیا۔انھوں نے مختلف شعبوں میں بڑھتے ہوئے دو طرفہ تعلقات کو خوش آئند قرار دیا۔ بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو سے ملاقات بھی کی اور بیلا روسی صدر الیگزینڈر لوکاشینکو سے گفتگو کے دوران پاکستان اور بیلا روس کے مابین دو طرفہ تعاون کے فروغ اور باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی ۔اذربائیجان کے صدر الہام علیوف سے بھی ملاقات کی۔کہا کہ پاکستانی متاثرینِ سیلاب بعض ملکوں کی ابادی سے بھی زیادہ ہیں. وزیرِ اعظم نے ویتنام کی نائب صدر اور ازبک صدر شوکت مرزا یوف سے بھی ملاقاتیں کیں.وزیراعظم شہبازشریف نے سیکا کانفرنس سے خطاب میں افغانستان کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن سے پورے خطے کو فائدہ ہوگا اورعدم استحکام سیپورا خطہ متاثر ہوا ہے جبکہ پاکستان امن پسند ملک ہے اور دنیا میں امن کا خواہاں ہے۔ پاکستان 40 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے اور خطے میں امن واستحکام سب سے زیادہ ضروری ہے۔
کشمیر سے متعلق انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیراقوام متحدہ کے چارٹرمیں حل طلب مسئلہ ہے اور سلامتی کونسل کی 2 قراردادوں کے باوجود مسئلہ کشمیر تاحال حل نہیں ہوا ہے۔ بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کیخواہاں ہیں اور مسئلہ کشمیرکے حل کے بغیرخطے میں امن کا خواب پورانہیں ہوسکتا۔واضح کیا کہ وسطی ایشیائی ممالک میں تنازعات کا سیاسی حل نکالا جانا چاہئے اور ہمیں بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے مگرہم ناامید نہیں ہیں۔ایسے عالمی فورمزمیں پاکستان کی نمائندگی یقیناً ایک اعزاز ہے.