1977سے ترکی اور مغربی رہنماؤں کے درمیان قبرص پر مذاکرات اور تنازعات کا سلسلہ جاری ہے ۔1985-86میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پئیرز ڈی کیولر اور 1992ئ میں بطرس غالی کی نگرانی میں مذکرات کو جاری رکھا گیا ۔ بطرس غالی کی جانب سے پیش کردہ تجویز کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی حمایت کی لیکن اس تجویز کے بارے میں ترکی اور یونان دونوں نے اپنے اپنے تردد کا اظہار کیا۔ دونوں اقوام کے درمیان مملکت کے ڈھانچے، سلامتی، سرحدوں اور ملکیت کے بارے میں بڑے واضح اختلافات پائے جاتے تھے۔ قبرصی ترکوں کے پاس جزیرے کا 36 فیصد اور قبرصی یونانیوں کے پاس 63 فیصد حصہ موجود تھا جبکہ غالی منصوبے کے تحت 28 فیصد ترکوں اور 72 فیصد قبرص یونانیوں کو دینے کا کہا گیا تھا لیکن اس منصوبے کو نہ ترکوں اور نہ ہی قبرصی یونانیوں نے قبول کیا۔ یورپی یونین کی جانب سے جنوبی قبرص کو یورپی یونین کی رکنیت عطا کرنے سے مسئلہ قبرص مزید کھٹائی کا شکار ہوگیا اور قبرصی یونانیوں نے شمالی قبرص کو یورپی یونین سے دو ررکھ کراس مسئلے کو مزید گمبھیر بنادیا۔ 1999ئ میں مسئلہ قبرص سے متعلق مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا اور 24اپریل 2004ئ کو ان مذاکرات ہی کے نتیجے میں عنان پلان کے تحت ریفرنڈم بھی کروایا گیا جسے قبرصی ترکوں نے تو قبول کرلیا لیکن قبرصی یونانیوں نے مسترد کردیا لیکن کتنی ہی بد قسمتی کی بات ہے یورپی یونین نے قبرصی یونانیوں کی جانب سے اس پلان کو مسترد کیے جانے کے باوجود یورپی یونین کی رکنیت عطا کردی۔ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں 18 سے سے 40 سال کی عمر تک کے 2 ہزار ترک قبرصی مردوں پر مشتمل ایک دفاعی فوج موجود ہے۔ یہ فوج 40 ہزار ترک بری فوج کے اراکین کی مدد کرتی ہے جس کی 11 ویں کور دو ڈویڑن کے ہمراہ جزیرے پر موجود ہے۔متنازع علاقہ ہونے کی حیث?ت سے ترک جمہوریہ شمالی قبرص میں ترک افواج کی موجودگی کو مختلف افراد مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ یونانی قبرصی اسے ایک غاصب و قابض فوج سمجھتے ہیں جبکہ ترک قبرصی اسے اپنے نجات دہندہ اور محافظ گردانتے ہیں۔
قبرص تنازعے کا حال:
اس تنازعہ میں ترکی ایک طرف اور یورپ ، امریکہ ، انڈیا ، اقوام متحدہ اورساری دنیا چاہتے نہ چاہتے دوسری طرف ہے ۔اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق دوسو ناٹیکل مائیل تک کا سمندری علاقہ متعلقہ ملک کی ملکیت ہے ترکی اس تشریح کو نہیں مانتاہے کیوں ایسا کرنے سے بحیرہ روم کے بہت سے علاقے یونان کی ملکیت بن جائیں ۔ اس تشریح کو نہ ماننے کی وجہ سے ترکی کے قریب کے لئے جزائر بھی یونان کی ملکیت ہیں جن پر تنازعات جاری ہیں ۔جو ترک سلطنت کے دور میں ترکی کا حصہ رہے ہیں ۔بہر حال 1974 کے بعد سے ترکی بزو طاقت اپنے ہم نسلوں کے حقوق کے لئے لڑ رہاہے ۔ قبرض کا علاقہ اس وقت اور بھی اہمیت اختیار کر گیا جب اس علاقے میں معدنی ذخائز کی موجود کا انکشاف ہوا ہے ۔ ترک کمپنیوں نے اپنے زیر قبضہ علاقوں سے تیل اور معدنیات کی تلاش شروع کی ہے۔بی بی سی کے مطابق ترکی اور یونان کے مابین سمندری حدود پر حالیہ تنازعہ 2019 میں تب شروع ہوا جب ترکی اور لیبیا کی اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت نے سمندری حدود کے حوالے سے ایک معاہدہ کیا جس میں ایسی سمندری حدود کو شامل کیاگیا جنہیں یونان اپنا قرار دیتاہے اور اس معاہدے پر مصر ، متحدہ عرب امارات اور کئی یورپی ممالک نے بھی اعتراض کیا ۔ جواب میں ترکی کا کہنا تھا کہ اس نے " بلیو ہوم لینڈ" کا نظریہ اپنا لیا ہے جس کا مقصد اپنے ساحلوں کے ارد گرد سمندری حدود کو محفوظ بنانا ہے ترکی کا کہنا تھا کہ وہ کسی ملک کو اپنے جنوبی ساحلوں کو محصور کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
صدر نائب صدر نے کہا کہ انقرہ ان تمام نقشوں کو پھاڑ دے گا جو ان کے ملک کو محصور کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں ۔6اگست 2020 کو یونان اور مصر کے نے سمندری حدود کے حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس پر ترکی نے سخت رد عمل کا اظہار کیا اور ردعمل میں علاقے میں تیل اور گیس کی تلاش کے لئے اپنے جہاز روانہ کردئیے اور اس کے ساتھ فوجی مشقوں کا آغاز کردیا ۔صدر ارغان نے 26اگست 2020 کو ایک تقریر میں کہا کہ " ہم چاہتے ہیں کہ ہرکوئی دیکھ لے کہ ترکی ایسا ملک نہیں رہا ہے جس کے عزم ، حوصلے اور صبر کو آزمایا جاسکتا ہو۔ہم سیاسی ، فوجی اور معاشی طورپر سب کچھ کرنے کے لئے پرعزم ہیں ۔ ہم کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ہیں "۔واضح رہے کہ اس تنازعہ کے دونوں بڑے اور بنیادی فریق نیٹو اتحاد کے رکن ہیں ۔جب ترکی اور یونان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ۔دونوں ممالک نے باقی نیٹو اتحادیوں سے رابطے بڑھانے شروع کیے ۔فرانس نے یونان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا جس پر ترکی نے کہا کہ پیرس یونان کو اشتعال دلا رہاہے کہ وہ سخت موقف اختیار کرے ۔یونان ترکی کے اقدامات کو غیر قانونی قرار دیتا ہے اور اٹلی اور مصر کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے بحیرہ روم پر اپنا حق جتاتا ہے ۔"یونان کے وزیر خارجہ کا کہناہے کہ یونان مذاکرات چاہتاہے مگر میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ترکی کے ساتھ ہمارے اختلافات مشرقی بحیرہ روم ، بحیرہ ایجین اور اس کے ملحقہ سمندری حدود کے حوالے سے ہیں اس کے علاوہ کسی اور مسئلے کو مذاکرات کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا ہے "۔یونان عالمی عدالت سے دور رہ کر اپنی بات منوانا چاہتا ہے ۔جرمنی نے بھی یونان کی طرف جھکاؤ دیکھا ہے جس پر ترقی نے اس ثالث کا کردار اپنائے رکھنے کا کہا ہے ۔
یونان نے اپنی سمندری حدود کا نقشہ جاری کیا ہے اس میں اس نے ترکی کی سرحد سے دو کلومیٹر دورکا سٹلریزو کو اپنا خصوصی اکنامک زون ظاہر کیا ہے ۔ یونان نے مصر کے ساتھ اس لئے سمندری معاہدہ کیا ہے تاکہ وہ ترکی اورلیبیا معاہدے کا توڑ کرسکے ۔یونان نے جب یورپ سے ترکی کے مقابلے میں مدد مانگی تو فرانس کے علاوہ کوئی یورپی ملک کھل ترکی کے خلاف سامنے نہیں آیا ہے ۔فرانس کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کی خطے میں عدم دلچسپی کے خلائ کو پر کرنا چاہتاہے اس لئے وہ اس تنازعہ کا حصہ بنا ہے ۔روس بھی اس معاملے میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے سرگرم ہے ۔روس نے سرکاری طورپر کسی کا فریق ہونے سے انکار کیا ہے مگر خطے خصوصا شام میں اس کا ترکی سے اتحاد ہے ۔2020 میں روس نے بحیرہ روم میں دو بحری مشقوں کا انعقاد کیا۔ترکی نے 23 جولائی 2021 کو 1974 سے بند شہر وروشاکو کھول دیا تھاجس پر اقوام متحدہ نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے تنازعے کا حل اور مشکل میں پڑھ جائے گا۔ترکی کے حامی مشرقی قبرص نے اس شہر کے کھلنے کا خیرمقدم کیا جبکہ یونانی قبرصیوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور اسے مسترد کردیا تھا۔ گزشتہ ہفتے امریکہ نے قبرص پر 35سال سے اسلحہ خریدنے پر عائد پابندیا ں مکمل طورپر ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے (ختم شد)
ترکی اور مغرب کے د رمیان تنازعہ قبرص
Oct 15, 2022