پاکستان نے نیوزی لینڈ کو تین ملکی سیریز کے فائنل میں شکست دے کر ٹرافی تو اپنے نام کر لی لیکن قومی ٹیم کی بیٹنگ کے مسائل ابھی تک اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ فائنل میں بھی آخری اوورز میں باؤلرز نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میزبان ٹیم کو بڑے سکور کی طرف جانے سے روکا۔ شاہین آفریدی کی عدم موجودگی میں حارث رؤف کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئی ہیں اور جب سے شاہین آفریدی ان فٹ ہوئے ہیں حارث بہترین باؤلنگ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں بھی پاکستان نے جن میچز میں کامیابی حاصل کی وہاں حارث رؤف کی جارحانہ اور جاندار باؤلنگ کا بہت اہم کردار ہے۔ نیوزی لینڈ میں بھی جب ٹیم کو ضرورت پڑی وہ کام آئے، سلو گیند بہت عمدگی کے ساتھ کر رہے ہیں جبکہ لائن اینڈ لینتھ میں بھی بہتری آئی ہے ان کی باؤلنگ میں سب سے اہم چیز بروقت وکٹیں حاصل کرنا ہے۔ حارث کی وکٹیں حاصل کرنے والی باؤلنگ سے مخالف ٹیم دباؤ میں آتی ہے۔ رنز زیادہ دینے کی وجہ سے ان پر تنقید ہوتی رہی ہے لیکن اب وہ نسبتاً زیادہ بہتر باؤلنگ کرتے ہوئے اس خامی پر بھی قابو پاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ عالمی کپ میں بھی ان کی طرف سے ایسی ہی کفایتی اور جارحانہ گیند بازی کی امید ہے۔ بیٹنگ میں جن کی ذمہ داری ہے وہ تو ناکام ہیں لیکن محمد نواز بیٹنگ آرڈر کی تبدیلی کے بعد مختلف نظر آ رہے ہیں۔ ایشیاء کپ سے لے کر نیوزی لینڈ میں کھیلی جانے والی تین ملکی سیریز کے فائنل تک انہوں نے بیٹنگ کے شعبے میں شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا ہے پاکستان اگر تین ملکی سیریز کا فاتح بنا ہے تو اس میں محمد نواز کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہدف کے تعاقب میں یا پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے وہ دونوں صورتوں میں آؤٹ آف فارم مڈل آرڈر کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ فائنل میں بھی محمد نواز نے بہترین بیٹنگ کی وہ ناصرف اچھے رنز کر رہے ہیں بلکہ اچھے سٹرائیک ریٹ کے ساتھ رنز کرنے سے مخالف ٹیم کو دباؤ میں لانے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ فائنل میں بابر اعظم اور محمد رضوان توقعات کے مطابق بڑے رنز تو نہ کر سکے لیکن مسلسل دو میچوں میں کم سٹرائیک کے ساتھ کھیلنے کی وجہ سے انہیں بھی تنقید کا سامنا ضرور ہے۔ اس سیریز میں بھی دونوں نے انفرادی حیثیت میں تو رنز ضرور کیے لیکن ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ کے تقاضوں کے مطابق پاور پلے میں زیادہ رنز نہیں کر سکے۔ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے مابین کھیلی جانیوالی سیریز میں دونوں ٹیمیں دو دو سو رنز سکور کرتی رہیں جبکہ بھارت اور جنوبی افریقہ کی سیریز میں بھی دو دو سو رنز ہوتے رہے دنیا کی تمام اچھی ٹیموں کے پاس دو سو رنز کرنے والے بیٹسمین موجود ہیں لیکن پاکستان کو بیٹنگ کے شعبے میں شدید مسائل کا سامنا ہے۔ حیدر علی مسلسل ناکام ہیں، شان مسعود کو مار دھاڑ پر لگا دیا گیا ہے، حالانکہ جس انداز سے رنز کر کے وہ قومی ٹیم تک آئے ہیں اس میں مار دھاڑ کے بجائے کرکٹنگ شاٹس نظر آتے ہیں۔ افتخار احمد اور آصف علی کی کارکردگی پر اتنا کچھ لکھا اور بولا جا چکا ہے کہ لوگ اکتا چکے ہیں لیکن وہ ٹیم کے ساتھ ہیں اور لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ جس کام کے لیے انہیں ٹیم کا حصہ بنایا گیا ہے وہ اب تک اپنا کردار نبھانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ بابر اعظم کی کپتانی پر بھی سوالات ہو رہے ہیں۔ بعض میچز میں وہ اپنے باؤلرز کو مناسب انداز میں استعمال نہیں کرتے، جن میچوں میں ٹیم کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں کپتانی کی غلطیاں بھی کھل کر سامنے آتی ہیں۔ جہاں تک کوچنگ سٹاف کا تعلق ہے وہ بھی مکمل طور پر ناکام ہے ناصرف ناکام ہے بلکہ ان کی نامناسب گفتگو کی وجہ سے ٹیم پر اضافی بوجھ بھی آ رہا ہے۔ کوچنگ سٹاف سے خالصتاً کھیل کے معاملات پر گفتگو کی توقع کی جاتی ہے لیکن پاکستان کے ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق، بیٹنگ کوچ محمد یوسف ناکامی کے بعد دھوپ اور بادلوں کی دلیل پیش کرتے ہیں ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق ٹیم کی ناکامی پر قدرت کا نظام سمجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کبھی جیت ہوتی ہے کبھی ہار ہوتی ہے، کبھی اچھا پرفارم ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا، کبھی شاٹس سیدھے فیلڈرز کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں کبھی نہیں جاتے اس قسم کی بے معنی گفتگو سننے کو ملتی ہے۔ اگر کھلاڑی ناکام ہیں تو کوچنگ سٹاف کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ انہیں بھی بہتر حکمت عملی کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نیوزی لینڈ میں کامیابی پاکستان کے لیے خوش آئند ہے گوکہ خامیاں موجود ہیں لیکن اس فتح سے اعتماد ضرور بہتر ہو گا۔ شاہین آفریدی پریکٹس میچز کے لیے دستیاب ہیں۔ سترہ اور انیس کو کھیلے جانیوالے پریکٹس میچوں میں ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ پی سی بی کے چیئرمین رمیز راجہ کہتے ہیں کہ فاسٹ باؤلر نوے فیصد فٹ ہیں۔ ٹیسٹ فاسٹ باؤلر عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ گھٹنے کی انجری میں نوے فیصد فٹ باؤلر کا کھیلنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔