اساتذہ پر شرمناک لاٹھی چارج

پنجاب سمیت لاہور کے اندر قوم کے معماروں پر پولیس تشدد تاریخ کے ماتھے کا وہ بد نما داغ ہے، جو کبھی مٹایا نہیں جا سکے گا۔ آئی جی پنجاب جو پوری پولیس فورس سے چند ایک اچھے اہلکار سامنے لا کر فخر سے کہتے ہیں کہ ، یہ پولیس کا اچھا چہرہ ہے؛ جبکہ آپ چار پانچ اچھے چہروں کے پیچھے وہ ہزاروں بدنما چہرے کیسے چھپا سکتے ہیں، جن کی جاہلانہ اور غیر قانونی حرکات سے آئے دن پوری پولیس فورس کا امیج خراب ہوتا ہے۔ 
قوم کی تربیت کرنے والے ان معصوم اساتذہ کا جرم کیا تھا۔۔۔ جو ان کے ا±جلے لباسوں پر پولیس کے گندے جوتوں کے نشانات دکھائی دئیے۔۔۔ یقین کر لیں ، پولیس کے غلیظ جوتوں کے یہ بدنما نشانات کسی استاد کے لباس پر نہیں بلکہ پولیس کے چہرے پر ثبت ہوئے ہیں۔۔۔ اگر اس ملک میں کوئی حکومت ہے ، کوئی قانون ہے ، کوئی ضابطہ یا کوئی اخلاقیات ہے تو عقل کر لے اور ہوش کے ناخن لے۔۔۔ 
احتجاج کہاں نہیں ہوتے ، دنیا کے ھر ملک میں لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ھیں ، باہر نکلتے اور احتجاج بھی کرتے ہیں۔۔۔ اساتذہ کا جرم کیا ہے ، وہ اپنے معاشی حقوق کے تحفظ کی آواز بلند کر رہے ہیں جو ان کا بنیادی حق اور حکومت وقت کی ذمہ داری ھے۔ کون سا انہوں نے سٹیٹ بنک لوٹ لیا ھے کہ ڈنڈوں ، مکوں اور ٹھڈوں سے گرفتار کیا گیا۔۔۔ کیا جرم تھا کہ انہیں حوالاتوں میں بند کیا گیا ، آئے روز سڑکیں بلاک کرنا اور احتجاج کرنا بھی اب اس ملک کے اندر سیاسی لیڈروں نے سماجی قانون ہی بنا دیا ہوا ہے۔ یہ تاثر تو گزشتہ کئی دہائیوں سے اس ملک میں رواج پا گیا ہے کہ بغیر احتجاج کے یہاں زندہ رھنے کا بھی کوئی حق نہیں ملتا۔ پھر اپنے معاشی حق کے جائز تحفظ کے لیے یہ ہزاروں بے یارو مددگار استاد کہاں جا کر آواز ا±ٹھائیں۔ جنہیں پہلے ہی اس بے رحم معاشرے کا پسماندہ ترین طبقہ اور تعلیمی عضو معطل بنا کر رکھ دیا گیا ھے۔ 
آپ ان سے مذاکرات نہیں کرتے ، ان کی بات نہیں س±نتے ، ان کے مسائل نہیں پوچھتے ؛؛ تو ایک بار اپنی بات اپنے مسائل ہی ان کو سنا کر دیکھ لیتے ، پھر آپ کو پتہ چلتا کہ استاد کسے کہتے ھیں ، استاد کی شفقت اور رحیمی کیا ھے ، جس سے یہ حکومت اور پولیس سمیت پورا معاشرہ بے بہرہ ہو چکا ہے۔ آپ جتنی مرضی ڈگریاں لے کر جس مرضی عہدے پر پہنچ جائیں ، اگر استاد کا ادب نہیں سیکھا تو اپنی ان غیر انسانی حرکتوں سے جانور ھی کہلائیں گے۔۔۔ کیونکہ آپ کو استاد سے بات کرنے کا سلیقہ ھی نہیں ہے، وہ معصوم وہ مظلوم اگر سڑکوں پر آ ہی گئے تھے تو آپ کی ذمہ داری تھی کہ ان مہمانوں کے عزت سے بیٹھنے اور کھانے کا انتظام کرتے پھر انکے پاس جاتے ، ادب سے سر جھکاتے ، ان کی خدمات کا اعتراف کرتے۔ اور پھر ان کی کوئی بات سنے بغیر صرف اپنی مجبوریاں اپنے مسائل ان کے سامنے رکھتے تو پھر وہ روحانی باپ بھی اپنی بے سروسامانیاں اپنے سینوں میں چھپا کر ، آپ کی کمر تھپتھپاتے اور بوجھل قدموں سے ا±لٹے پاوں واپس لوٹ آتے۔ مگر کیا کریں کہ حکومتی اور انتظامی عہدوں کو پہلی ٹریننگ ہی شاید تمیز بھول کر بدتمیزی کرنے کی دی جاتی ہے۔ 
یاد رکھیں جس معاشرے میں استاد کی بے ادبی اور بے قدری شروع ہو جائے ا±س معاشرے سے علم کوچ کر جاتا ہے۔۔۔ ذرا آنکھیں اور دماغ کھول کر ایک لمحے کے لیے غور کریں کہ، جو آئی ایم ایف ان اساتذہ کے محنت اور خون پسینے کے جائز معاوضہ پر کٹوٹیاں لگا رہا ہے؛ اس آئی ایم ایف کے اپنے یورپی رکن ممالک میں استاد کی قدر اور مقام کیا ھے اور وہاں معیار تعلیم کیا ھے ، وہ یورپی ممالک اپنی تعلیم پر کتنا خرچ کرتے ہیں ، اور ہمارا تعلیمی بجٹ کتنے فیصد ہوتا ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ اہم غور طلب بات یہ ہے کہ کسی بھی ریاست کا بنیادی فرض ہوتا ہے۔ اپنے عوام کو تعلیم ، صحت ، روزگار مہیا کرنا۔۔۔ اور یہ کیسی ریاست ہے جو اپنے اصل فرائض فراموش کر کے چھ دہائیوں سے صرف قرضوں پر چلائی جا رہی ہے۔ ایسے تمام معاہدے ریاستی غداری کے زمرے میں آتے ہیں جن کے تحت ریاست کے اپنے عوام سے تعلیم اور روزگار کا حق چھینا جا ررہا ہو۔ 
مقدمات تو اساتذہ کیساتھ ہونے والی ریاستی غنڈہ گردی پر درج ہونے چاہئیں تھے ، جن جاہلوں نے استادوں پر ہاتھ ا±ٹھایا وہ جیلوں میں ہونے چاہئیں تھے ، لیکن آئی جی پنجاب پولیس اپنی ایب نارمل پولیس فورس کی اس کاروائی پر بنا مذمت کے سینہ تان کر نکل جائیں گے۔ 
اور کارروائی تو اس لاقانیت پر ہونی چاہیے کہ منتخب اسمبلی کی بجائے نگران حکومت بغیر قانون سازی کئے ہزاروں سرکاری سکولوں کو این جی او کے سپرد کرنے کی بات کیسے کر سکتی ہے اور یہ غیر قانونی حکومت جو تین ماہ کے لیے الیکشن کرانے آئی تھی غیر قانونی اقدامات کیسے کر سکتی ہے۔ آپ پہلے سسٹم ٹھیک کریں افراد خودبخود ٹھیک ہو جائیں گے۔۔۔ باقی استاد کی حرمت پر میں لکھنے بیٹھوں تو لکھتے لکھتے شاید زندگی گزر جائے ۔ لہذا ایک ہی ضرب المثل کہوں گا کہ ؛؛؛ با ادب با مراد ، بے ادب بے مراد۔

ای پیپر دی نیشن