یہودیوں کے مظالم اور مولانا کی وعظ

دنیا یہودیوں کی اصلیت سے بجا طور پر واقف ہے لہذا دنیا کے متعدد ممالک سے یہودیوں کو ان کی انسانیت سوز دشمنی اور مکروہ رویے کی وجہ سے بے دخل کیا گیا ، یہود کا مملکتوں سے اخراج بے مقصد نہ تھا ، اقوام عالم یہودیوں کے غلبہ کرنے اور بد امنی میں ملوث ہونے کی وجہ سے بے حد پریشان تھے، جس کی وجہ سے یہود کوبے شمارپیمانے پرملک بدر ہونا پڑا ، اوراپنے علاقوں سے فرار ہو کر دیگر ممالک میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہوئے۔
 انگلستان پہلا ملک تھا جس نے 1290ءمیں یہودیوں کو ملک بدر کیا تھا۔ مجارستان نے پہلے 1349ءاور اسکے بعد دوسری مرتبہ 1360 ءمیں یہودیوں کو ملک بدر کر کے چھٹکارا حاصل کیا تھا، فرانس نے 1394ء میں آسٹریا نے 1421ء میں صقلیہ اور ہسپانیہ نے 1492ءلتھوینیا نے 1495ءپرتگال نے 1497 نورنبرگ نے 1499ء ناپولی نے 1510ءمیلان نے 1597ءمیں ملک بدر کر دیا تھا ، 1645ءمیں امریکہ کے وجود میں آنے سے 100 قبل برازیل سے ایک کشتی کے ذریعے صرف 23 یہودی پناہ گزین قدیم شہر ایمسٹر ڈیم پہونچے جسے آج نیو یارک کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ ان یہودیوں کی اولادیں تھیں جنہیں ہسپانوی احتسابی نظام کے دور میں مقدمات کی بنا پر ملک بدر کیا گیا تھا، امریکہ میں پناہ لینے والے یہودی زیادہ تر مشرقی یورپ سے تعلق رکھتے تھے، ان میں روسی سلطنت کے قوانین سے بھاگ کر آنیوالے یہودی بھی شامل تھے، جس کے تحت انہیں روس کے بڑے حصے سے بے دخل کر کے یوکرین، بیلا روس، لتھوینیا، لاتویا، مالدووا، اور پولینڈ کے اکثریتی حصے پر مشتمل آباد کاری کے خطہ میں رہنے کا پابند کر دیاگیا تھا۔
 1800 ءعیسوی میں روس سے بیدخل کئے گئے یہودیوں کو ترکی کے خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی نے پناہ دی، سلطان عبدالحمید ثانی کو صیہونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل نے خط کے ذریعے فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے اور اس کے بدلے ایک سو پچاس ملین پاﺅنڈ دینے کی پیشکش کی تھی، جس کے جواب میں خلیفہ عبدالحمید نے منہ توڑ جواب دیا تھا کہ ”جناب ہرزل کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ وہ اس موضوع کے بارے میں نہ سوچیں اس لئے کہ فلسطین میری ملکیت نہیں، میں فلسطین کا ایک بالشت بھی نہیں بیچ سکتا، فلسطین سارے مسلمانوں کی ملکیت ہے اس مٹی کی خاطر میرے آباﺅاجداد عثمانیوں نے سینکڑوں سال جہاد کیااس کی مٹی میں مسلمانوں کا خون شامل ہے، جب تک میں زندہ ہوں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ چھری کے ساتھ میرے بدن کو کاٹنا آسان ہے، لیکن مجھے یہ گوارا نہیں کہ دیارِ اسلام سے فلسطین کو کاٹا جائے“۔ 
دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر البانیہ کے مسلمانوں نے یہودیوں کو پناہ دی ، لیکن 1939ءمیں البانیہ پر مسولینی کے قبضے کے بعد یہودیوں کا داخلہ مشکل ہو گیا تھا، لیکن جب نازیوں نے البانیہ پر قبضہ کیا تو انہوں نے البانیہ کے حکام سے ملک میں آباد یہودیوں کی فہرستیں فراہم کرنے کو کہا تاکہ انہیں جلا وطن کیا جائے ، جب جرمنی 1918 ءمیں جنگِ عظیم ہارا تو جرمن ششدر رہ گئے کیونکہ یہودی فرنٹ لائن پر تھے، جرمن یہ بات ماننے سے انکاری تھے کہ جرمنی جنگ ہار چکا ہے، ان کے مطابق یہ ایک سازش تھی اور عسکری طور پر جرمنی کو شکست نہیں ہوئی تھی بلکہ یہودیوں سمیت اندرونی دشمنوںنے جرمنی کے ساتھ غداری کی تھی ، جرمن کہتے ہیں کہ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا۔ 
جرمنی سے فرار ہوئے یہودیوں کو کوئی ملک پناہ دینے کیلئے تیار نہ تھا ، یہاں تک کہ امریکہ اور یورپ سمیت دیگر ممالک نے یہودی پناہ گزینوں کے جہاز وں کو اپنی حدود سے باہر کر دیا تھا ، دنیا سے مایوس یہ یہودی پناہ کی بھیک مانگنے فلسطین کی ریاست پہونچے تو فلسطین کی ریاست اور عوام نے اسلامی شعار کے جذبہ اور انسانی حقوق کے تحفظ کے تحت انہیں پناہ دی جو کہ ان کے لئے وبال جان بنی ہوئی ہے ، فلسطین کی زمین پر قابض صیہونی جنہیں دنیا کے تمام مذاہب نے دھتکاردیا تھا ، انہیں صرف مسلمانوں نے پناہ دی ،آج یہ یہودی فلسطین میں درندگی کی حدیں عبور کر چکے ہیں بچوں ،بوڑھوں، عورتوں، معذووں اور عام شہریوںکی زندگیوں کو ختم کر دیا ، فلسطینیوں کی نسل کشی ابھی جاری ہے ، نازیوں نے یہودیوں پر اتنے مظالم نہیں ڈھائے ہونگے جتنے فلسطین کے عوام نے جھیلے ہیں فلسطینی آزادی کے متوالے اور فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے یہودیوں کے مظالم کے ردِ عمل میں اسرائیل پر جرآت مندانہ وار کیا تو امریکہ اور یورپی ممالک جنہوں نے یہودیوں کو ماضی میں ملک بدرکیا تھا ، آج اسرائیل کی حمایت میں کھڑے ہو گئے ہیں ، اسرائیل نے غزہ کی انسانی بستی کو کھنڈرات میں بدل دیا ہزاروں بچے ، بوڑھے عورتیں اور ایک عام بے ضرر شہری صیہونی بموں کی بارش میں آزادی کی حسرت لئے دنیا سے چل بسے، یہودیوں کے مظالم اور مولانا کی وعظ نے چھلنی جگر پر نمک پاشی کر دی ،مولا فضل الرحمن نے جہاں حماس کے حملے کی تعریف کی وہیں انسانی حقوق کا درس دے کر غزہ میں صیہونیوں کو تقویت دی ، لیکن پچھلے ستر سالوں سے یہودیوں کے مظالم سہتی قوم اپنی نسل پر ستی پر کیسے انسانی حقوق کا تحفظ کرے ، جب کہ آپ نے غزوہ بنو قریظہ کے تمام مرد قیدیوں کے سر قلم کروائے ایک قیدی عورت جس کا جرم یہ تھا کہ اس نے چھت سے چکی کا پاٹ گرا کر حضرت خلاد بن سویدؓ کو شہید کیا تھا، اس کا بھی سر قلم کروایا مولانا آج آپ ان مظلوموں کو انسانی حقوق کا درس دے رہے ہیں، جو یہودی وحشی درندوں سے اپنے ملک کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، جنہوں نے ساری دنیا کی ٹھکرائی ہوئی قوم کو پناہ دی۔ قرآن گواہ ہے کہ بنی اسرائیل نے اپنے 43 ، انبیاءکو ایک ہی دن صبح کے وقت قتل کیا، ایسی بدبخت قوم کوانسانی حقوق کا تحفظ دینا بھی بد بختی ہے۔

ای پیپر دی نیشن