پشاور میں ایوان صنعت و تجارت کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ایک طرف 90 ہزار لوگ اپنی جانیں دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف چند لوگ حق سمگلنگ مانگ رہے ہیں۔ کیا اس طرح معاشرہ چل سکتا ہے۔بعض لوگ چوری اور سمگلنگ کو اپنا حق تصور کرتے ہیں۔ سمگلنگ اور کرپشن کو بالکل برداشت نہیں کیا جائیگا۔ افغان مہاجرین کو نہیں نکال رہے۔ کارروائی صرف غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے والوں کے خلاف ہے۔ افغان مہاجرین واپس جائیں گے۔ ہم بدلہ لینے کی کیفیت یا انا پرستی پر کسی کو وطن سے نہیں بھیج رہے۔ دوسری جانب نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی تارکین وطن میں سے جو یکم نومبر تک جانا چاہتا ہے چلا جائے اسکے بعد نوکمپرومائز ہوگا۔ یہ صرف افغان بیسڈ پالیسی نہیں ہے، یہ پالیسی غیرقانونی سویلینز کے بارے میں ہے، چاہے وہ جس بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہم صرف غیرقانونی مقیم غیرملکیوں کو بھیج رہے ہیں۔
اس وقت پاکستان معاشی طور پر انتہائی بدحالی کا شکار ہے‘ آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں سے قرض اور دوست ممالک سے بیل آﺅٹ پیکیجز لے کر ملکی معیشت چلائی جا رہی ہے۔ ان حالات میں بھی پاکستان لاکھوں افغان مہاجرین کی گزشتہ چالیس سال سے مہمان نوازی کر رہا ہے جبکہ غیرقانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کی تعداد الگ ہے جو یہاں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ ڈالر‘ اجناس اور دوسری اشیاءکی افغانستان سمگلنگ کی جارہی ہے جس سے پاکستان کی معیشت متاثر ہوئی وہیں اسے غذائی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسکے علاوہ دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی افغان باشندے ملوث پائے گئے ہیں۔ کابل انتظامیہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ان پناہ گزینوں کے ذریعے کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کی سرپرستی کررہی ہے۔ اس تناظر میں حکومت پاکستان نے غیرقانونی باشندوں بشمول افغانیوں کو واپس بھیجنے کا درست فیصلہ کیا ہے۔ گو کہ گزشتہ دنوں پناہ گزینوں کیلئے اقوام متحدہ کے ادارے یونائیٹڈ نیشن ہائی کمشنر فار ریفیوجز (یواین ایچ سی آر) اور عالمی ادارہ برائے مہاجرین (آئی ایم او) نے پاکستان سے اپیل کی کہ وہ افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں کو جبراً واپس نہ بھیجے ‘ انہیں افغانستان میں اپنے تحفظ کے حوالے سے سنگین خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ان عالمی اداروں کو بخوبی ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستان معاشی بدحالی اور افغان باشندوں کی غیرقانونی سرگرمیوں کے باعث انکی مزید مہمان نوازی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اب صرف غیر قانونی افغان باشندوں کی واپسی پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ تمام افغان مہاجرین کے انخلاءکا بھی فوری بندوبست کیا جائے جو پاکستان کی کمزور معیشت پر مسلسل بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ اس پالیسی پر نہ کوئی سمجھوتہ کیا جائے اور نہ اندرونی و بیرونی کسی دباﺅ کو قبول کیا جائے۔