شاز کی آواز شاز نامہ
روح تو گمان کے سمندر کے کنارے پر چپ کی مچان پر دھیان کا آسن لگا کر گیان کی سعی میں بیٹھی رہنا چاہتی ہے مگر۔۔۔ مگر یہ دل کی دنیا میں آرزوو¿ں کے شہر سے اٹھتا شور یہ خواہشوں کی پکار۔۔ یہ کھونے پانے۔۔اور ملنے بچھڑنے کی آہ و بکار۔۔۔کہیں پر من و تو کی تکرار۔۔ تو کہیں پر چاہ کی راہ پر تذبذب کے اندھیروں میں گھرے دلوں میں ہاں اور ناں کی آہ و بکار۔۔۔ مگر ان سب سے پرے روح اور اسکی بصارتیں اندھیروں سے جان چھڑا کر ذکر کے نورانی آنچل کو اوڑھ کر جذب کی سرسراتی ہواو¿ں اڑنے کی تمنائی۔۔۔ مگر اسکی سماعتوں میں شور کے تانبے جیسے سکوں کی کھنکھناہٹ اسکی سماعتوں میں سیسہ ڈالکر جھنجھلانے کرلانے پر مجبور کرتی ہے۔۔ کیونکہ وہ تو خاموش پرسکون یاد ربی میں مست و مگن لمحوں کی شیدائی۔۔ عجز کے جا? نماز پر ذوق و شوق سے عشق کی صلوات پڑھنے کی تمنائی۔۔ جو انکلیوں کی تسبیح میں ذکر پرو? شکر پرو? مست الست رہنا چاہتی ہے۔۔ جو بظاہر تو تن کے پنجرےمیں مقی?د ہے۔۔۔قفس میں ہے۔۔ مگر پھر بھی لطیف ہے۔۔۔ اور جب ذکر کے نور کی سرسراتی نورانی ہوا لہروں کی طرح اسکے وجود کو اڑانے لگتی ہے تو پھر وہ ٹھوس زمین سے لطیف آسمان کی وسعتوں میں جا پہنچتی ہے۔۔شور سے بہت پرے اک ایسی دنیا جسکی وہ باسی رہی ہے تن کے قفس میں قید ہونے سے پہلے۔۔دراصل روح کی لطافت و لافانیت کا رابطہ تو ازل سے روحانیت سے ہے۔۔ مگر وہ۔۔ یہ شور جو ظاہر بھی ہے اور اندر بھی ہے اور باہر بھی۔۔۔ اسے ایکمرکز پر یکجا نہیں ہونے±دیتا۔۔ گمان کے کنارے پر رہ کر گیان کے±سمندر میں اترنے نہیں دیتا۔۔
مگر یہ روح گیان کے ساحل پر بکھری ان گنت احساسات و خیالات کی سیپیاں اکھٹی کرتی رہتی ہے پھر ان کو اپنے وجدان میں پرو کر دھیان کا آسن لگا کر شکر کے مراقبے میں مست و مگن ہو جاتی ہے۔۔ اور پھر۔اس مقام پر شور بھی خاموش ہو جاتا ہے۔چپ کی فضاو¿ں میں گم ہو جاتا ہے۔۔ ذکر کی ہوائیں اسے اڑا کر گیان کے سمندر میں اتار دیتی ہیں اور پھر سفر دوبارہ شروع ہوتا ہے عشق کا ایسا سفر جسکا کوئی انت نہیں۔۔
کیونکہ اس تمام تر حشر سامانیوں کے بعد روح اور گیان کی دھول پی کر دل حالت وجد آکر جب رقص کرتا ہے تو دل کے پیروں میں بندھے حسرتوں کے گھنگرو تھرکتے سمے جو تال چھیڑتے ہیں اس تال پر عشق کے مدھم سر جنم پاکر روح وجسم کو دل سے جوڑ کر دماغ میں ایک عکس بنادیتے ہیں اور جب اس عکس کا وجود اس جسم کے سامنے آتا ہے تو پھر محبت عشق کا کھیل شروع ہوتا ہے کہین لیلی کہیں سسی کہیں مہینوال کہیں قیس ماروی پنہون وجود پاتے ہیں یہ عشق کے سفر میں بچھی اس راہ کے سنگ میل ہیں مگر عشق کی منزل نہ کسی کو ملی اور نہ مل پایے گی۔۔۔
شاز ملک فرانس