'' ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے ''

معاف کیجئے …امین کنجاہی 
a.amin1961@gmail .com

سماج اس وقت غربت وبے روزگاری ،تعلیم وصحت کم شرح خواندگی اور افراط آبادی اور دیگر مسائل کا شکار ہے جن کے حل کے لئے مختلف دور میں کوشش کی جاتی رہی لیکن یہ لاینحل روپ دھارے اب بھی زمام اقتدار پر براجمان اشرافیہ کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ اس وقت غربت وبے روزگاری کی دلدل میں پھنسے دکھائی دیتا ہے اور توجہ طلب امریہ کہ ملک کی 38فی صدسے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے اپنی زندگی بسر کر رہی ہے اور لاکھوں افراد بے روز گار ہیں اور نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے دربدرکی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں اور ملازمت ان کے مقدر میں نہیں جس سے ان میں مایوسی اور بے چینی پیدا ہو رہی ہے اور بے راہروی بڑھ رہی ہے اور بے روز گاری سے جرائم کی شرح میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے حکومت بے روز گاری کے خاتمے کے لئے گھریلو سطح اور نجی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کرے اور روز گار کے لئے نئے مواقع پیدا کرے اور نادار لوگوں کو آسان شرائط پر قرضے مہیا کرے تاکہ ایسے افراد جو تنگدستی سے ایام زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنا کاروبار شروع کرکے بال بچوں کا پیٹ پال سکیں آخر کب تک یہ زلت ورسوائی کی زیست بسر کرتے رہیں گے پاکستان میں اس وقت 40فی صد آبادی بنیادی تعلیمی ضروریات سے بھی محروم چلی آرہی ہے اور ناخواندہ افراد انفرادی اور اجتماعی طور پر ملک کی تعمیر وترقی میں خواندہ افراد جیسا کردار ادا نہیں کر پا رہے ہیں حکومت نئے سکول کھولے اور پہلے سے موجود تعلیمی اداروں کا درجہ بڑھائے تاکہ شرح خواندگی میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہو اور ملک وقوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوں تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت کے مسائل بھی عوام کے مقسوم کی تصویر کشی دکھائی دیتے ہیں وطن عزیز کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں عوام صحت کی بنیادی ضروریات و سہولتوں سے محروم چلے آرہے ہیں۔اور لوگ علاج معالجہ کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے شدید پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں اور تعلیم و صحت کی سہولتیں ان کے لئے شجرہ ممنوعہ بن چکی ہیں خاص کر دیہاتوں میں زچکی کے دوران بہت سے اموات ہو رہی ہیں حکومت نے صحت پر توجہ دی ہے لیکن یہ سہولتیں نا کافی ہیں حکومت نے ہسپتال ڈاکٹرز اور نرسوں کی تعداد تو بڑھائی ہے لیکن یہ سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اس وقت رورل ہیلتھ سنٹرز اور ڈسپنسریوں میں عملے اور ادویات کی کمی ہے اور لوگوں کو جدیدسہولتیں میسر نہیں دیہاتوں میں تعلیم وصحت کے مسائل سے لوگ مشکلات سے دو چار ہیں افراط آبادی کا مسئلہ ایک گھمبیر صورت اختیار کر تا جا رہا۔ہے اور لوگ دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کررہے ہیں آبادی میں اضافے سے خوراک تعلیم وصحت بے روز گاری ٹریفک اور ماحولیاتی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں ضرورت واقعی ہے حکومت افراط آبادی پر قابو پانے کے لئے سرگرمی دکھلائے اور یہ لوگوں کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے حکومت کو چائیے کہ وہ شہریوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے ٹھوس قدم اٹھائیں اور عوام کا معیار زندگی بلند کرے حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ مہنگائی اور بے روز گاری کے مسائل کو حل کرے لوگوں کو مایوسی کے سمندر سے نکالے لیکن صد افسوس اس وقت حکومت معاشی بحران کا شکار ہے اور معیشت کی بحالی کے لئے حکومت اور آرمی چیف کوشاں ہیں اور معاشی بہتری آرہی ہے لیکن حکومت مخالف سیاسی جماعتیں سیاسی عدم استحکام پیدا کررہی ہیں جو لمحہ فکریہ ہے سیاست میں رواداری ضروری ہے جس ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو وہ ترقی نہیں کر سکتا ایک طرف شنگھائی تعاون تنظیم کا انعقاد نیک شگون ہے لیکن دوسری طرف سیاسی بے چینی کسی لحاظ سے بھی درست نہیں۔ پاکستانی معاشرے کو اس وقت جو مسائل درپیش ہیں ان کے حل کی طرف حکومت اور اپوزیشن دونوں کوتوجہ دینا ہے !!

ای پیپر دی نیشن