ایک تجربہ اور سہی 

Oct 15, 2024

خالدہ نازش

پس آئینہ 
خالدہ نازش

بچپن میں چھوٹی چھوٹی پاکٹ سائز کہانیوں کی کتابیں پڑھنا بھی ایک دلچسپ مشغلہ ہوا کرتا تھا - ایسی کتابیں عام محلے کی دکان سے مل جاتی تھیں ، یا پھر لاٹری میں سے نکل آتی تھیں - لاٹری جسے قسمت پوڑی کہتے تھے کاغذ کی ایک پوڑی میں ایک چھوٹا سا بسکٹ لپیٹا ہوتا تھا اور ساتھ ایک پرچی ہوتی تھی جس پر لاٹری سے نکلنے والی چیز کا نام یا پھر نمبر دیا ہوتا تھا - اس چار آنے کی قسمت پوڑی پر قسمت کا انحصار ہوتا تھا بسم اللّٰہ پڑھ کے پوڑی کھولتے تھے اگر کچھ نکل آتا تو ہم قسمت کے دھنی ہیں ، اور اگر کچھ نہ نکلتا تو قسمت کو کوستے تھے - قسمت پوڑی سے نکلنے والی پاکٹ سائز کہانیوں کی کتابوں میں بادشاہوں ، پرستان کی پریوں ، شہزادے شہزادیوں ، سوداگروں ، کوہ قاف کے جنات یا جادو گروں کے محتصر قصے ہوتے تھے جو دس منٹ میں پڑھے جا سکتے تھے - ان کہانیوں میں بادشاہ ایک طلسماتی شخصیت اور لامتناہی اختیارات کا حامل کسی الگ دنیا کا انسان لگتا تھا - یہ کہانیاں تخیلاتی دنیا میں لے جاتی تھیں ، اور ہم کھیل میں بادشاہ ، شہزادہ ، شہزادی ، سوداگر ان تمام کرداروں کو پرفارم بھی کرتے تھے - بچپن کے تمام کھیل ، چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے تمام کردار زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں - نئے نئے کھیل شروع ہو جاتے ہیں ، نئے نئے کرداروں سے واسطہ پڑنے لگتا ہے جو کہانیوں میں لکھے لفظوں کے ہیر پھیر سے بہت محتلف ہوتے ہیں تخیلاتی دنیا سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لے آتے ہیں - بچپن کے قصے کہانیوں سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں بھی دیکھا کہ انبیا علیہ السلام سے لے کر اب تک دنیا میں شاہی نظام حکومت چل رہا ہے - انبیا علیہ السلام کے زمانے میں ایسے بادشاہ بھی گزرے ہیں جنہوں نے پوری دنیا پر حکومت کی ہے ، ان میں ذوالقرنین اور حضرت سلیمان علیہ السّلام دو مومن ، نمرود اور بحت نصر دو کافر بادشاہ تھے - اس خطے پر جس میں ہم رہتے ہیں بادشاہت کا ایک طویل دور گزرا ہے ، جس میں خاص طور پر مغل بادشاہوں کے عروج و زوال کی بہت داستانیں ملتی ہیں - اس وقت بھی دنیا کے تقریباً 44 ممالک میں بادشاہت ہے ، مگر اب یہ نظام حکومت بھی کافی حد تک بدل چکا ہے - پرانے زمانے کے بادشاہوں کے مقابلے میں جو رعایا کے معاملے میں بہت سنگدل ، جابر اور انہیں حقوق سے محروم رکھنے والے ہوا کرتے تھے اب ملکی وسائل کو رعایا پر خرچ کیا جاتا ہے - دنیا میں تمام طرزِ حکومت کے مقابلے میں جمہوری طرزِ حکومت کو بہترین سمجھا جاتا ہے ، کیونکہ یہ عوام کی حکومت ہوتی ہے جو عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے چلاتی ہے - امریکی صدر ابراہام لنکن نے جمہوریت کی تعریف سب سے جامع الفاظ میں کی تھی ? عوام کی حکومت ، عوام کے ذریعے ، عوام کے لئے ، اگر اس تعریف کا موازنہ پاکستان کی نام نہاد جمہوریت کے ساتھ کیا جائے تو ابراہام لنکن کی تعریف کے منہ پر بہت بڑا طمانچہ ہو گا ، کیونکہ پاکستانی جمہوریت میں نہ عوام کی حکومت ہوتی ہے ، نہ عوام کے ذریعے اور نہ عوام کے لئے ہوتی ہے ، بلکہ جمہوریت کے نام پر ایک بہت بڑا دھوکا ہے - صرف الیکشن کرا کے دنیا کو دکھا دیا جاتا ہے کہ ہم ایک جمہوری ملک ہیں - عوام کی حق رائے دہی کا اتنا احترام ہوتا ہے کہ وہ الیکشن والے دن ووٹ ڈال آتے ہیں اور پھر انہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ ہے تمہاری اور تمہارے ووٹ کی اوقات - 8 فروری 2023ءکے الیکشن کو نہ صرف پاکستانی بلکہ اس الیکشن کی کوریج کرنے والے بین الاقوامی میڈیا نے بھی پاکستان کی تاریخ کا متنازعہ ترین الیکشن قرار دیا ہے جس کے نتائج کے برعکس مختلف پارٹیوں کو ملا کر بنائی جانے والی حکومت جسے فارم 47 کی حکومت اور عوام کے مینڈیٹ پر سب سے بڑا ڈاکا کہا جاتا ہے ، عوام کی پوری سپورٹ کے بغیر عوام کی بھلائی کے لئے کیسے کام کر سکتی ہے - اس کے علاوہ یہ حکومت اپنے فیصلوں سے مزید اپنی ساکھ کھو چکی ہے جو عوام کے مفاد میں نہیں جا رہے - آج کل یہ حکومت ایک آئینی ترمیم کرنے جا رہی ہے جس کے لیے اس کے پاس ممبرز پورے نہیں ہیں ، اور یہ نمبرز پورے کرنے کے لیے حکومت کو آئین کے آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ سپریم کورٹ سے تبدیل کرانا پڑا - آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے اراکین اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے خلاف دیا گیا ووٹ گنتی میں شمار نہیں ہو گا ، لیکن حکومت کی طرف سے اس فیصلے کے خلاف دائر کردہ اپیل کو منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی سابقہ تشریح کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے - اب اس فیصلے کے مطابق اگر کوئی رکن اسمبلی پارٹی پالیسی کے خلاف جا کر ووٹ دیتا ہے تو اس کا ووٹ گنتی میں شمار کیا جائے گا ، یوں ہارس ٹریڈنگ جسے لوٹا کریسی بھی کہہ سکتے ہیں کا راستہ کھول دیا گیا ہے - اس فیصلے کے ذریعے نمبرز پورے کرنے کے لیے منڈیاں لگا کر بولی کے ذریعے اپوزیشن پارٹی کے رکن اسمبلی کو خریدنے کی راہ ہموار کر دی گئی ہے - اگر کوئی بکنے کے لئے تیار نہ ہوا تو زور زبردستی جبر و تشدد کے ذریعے بھی ووٹ ڈلوایا جا سکے گا اور وہ ووٹ گنتی میں شمار بھی ہو گا - حکومت جو آئین میں ترمیم کرنے جا رہی ہے اس کے تحت نئی آئینی عدالت بنائی جائے گی ، کہا جاتا ہے کہ اس آئینی عدالت کے اختیارات سپریم کورٹ سے زیادہ ہوں گے ، یوں حکومت سپریم کورٹ کے اختیارات کم کرنے جا رہی ہے ، اور اس آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت آئینی معاملات میں ایک سیشن کورٹ کے جج جتنی رہ جائے گی - اس ترمیم کے ذریعے حکومت آئین کی بہت سی شقوں کو بدلنے جا رہی ہے ، جس سے 1973ئ کے آئین کی ہیت ہی بدل دی جائے گی تاکہ بہت سے معاملات میں جب عدلیہ مینج نہیں ہو سکتی تو اس کے پر ہی کاٹ دیئے جائیں - اب اللّہ ہی جانتا ہے کہ اس میں عوام کا کونسا وسیع تر مفاد ہے - یہ ہے پاکستانی جمہوریت کا بھیانک چہرہ ، ایسی اور بھی اس جمہوریت کی بے شمار مثالیں ہیں جس کے لیے یہ جمہوریت خود شرمندہ ہے - پاکستانی جمہوریت کی ایسی کرتوتیں دیکھ دیکھ کر میرا دل اس جمہوریت سے اچاٹ ہو چکا ہے ، اس لیے میرا دل کئی دنوں سے بچپن میں پڑھی جانے والی بادشاہوں کی کہانیاں جو تخیلاتی دنیا میں لے جاتی تھیں کی طرح تخیلاتی دنیا میں رہ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان میں پرانے زمانے کے بادشاہوں کی طرح کا شاہی نظام قائم ہو جائے - یہاں آمرانہ نظام کے بھی کئی بار ناکام تجربے ہو چکے ہیں - میرا دل چاہتا ہے کہ اب یہاں ایک نیا تجربہ کیا جائے - ویسے بھی ہمارے حکمرانوں میں شاہی خاندانوں جیسی صفات پائی جاتی ہیں اس لیے میرا دل کرتا ہے کہ یہاں ایک مکمل شاہی نظام ہو اور ہم پر ایک ظالم اور جابر بادشاہ مسلط ہو ، جو کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہو ، جو ہم رعایا کے تمام حقوق غصب کر کے ہم کو بھیڑ بکریاں سمجھے ، اور ہم اس کے نام سے ہی تھر تھر کانپیں - وہ جس کا چاہے سر قلم کرنے کا حکم صادر کرے اور جس کی چاہے جان بخشی کر دے - کسی کو اس کے حضور فریاد کرنے کی بھی جرآت نہ ہو ، اگر وہ حکم دے کہ فریادی کو پیش کیا جائے تو فریادی جان کی امان پا کر بادشاہ کے حضور فریاد کرے - اس کے ظلم وستم کے چرچے زبان زد عام ہوں ، اور دنیا کے تمام اخبارات کی زینت بنیں - لوگ ہٹلر کو بھول جائیں - وہ ہم عوام سے بے خبر ہر وقت رقص و مے کی محفلوں میں مدہوش رہے - وہ جب اپنے وزیروں ، مشیروں اور خدمت گزاروں کے ساتھ پورے جاہ و جلال سے ہاتھی پر سوار ہو کر اپنے محل سے باہر نکلے تو ہمارے دل میں بے شک اس کے لئے شدید نفرت ہو ، مگر وہ جن جن راستوں سے گزرے ہم رعایا اس کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہوں - وہ ہم پر بنی اسرائیل پر مسلط جالوت بادشاہ کی طرح ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دے اور جس طرح انہوں نے جالوت کے ظلم سے تنگ آ کر اپنے اوپر جہاد فرض کر لیا تھا ، اسی طرح ہم بھی آخر تنگ آ کر ایک قوم بن جائیں اور اپنے اوپر جہاد فرض کر لیں ، اور اس سے نجات حاصل کر کے ایک ایسا جمہوری نظام ملک میں رائج کریں جو صحیح معنوں میں ہماری امنگوں کا ترجمان ہو - آج کل میرا دل شدت سے یہ سب چاہ رہا ہے ، مگر میں اپنے دل کو سمجھا رہی ہوں کہ ایسے خواب صرف تخیلاتی دنیا میں ہی رہ کر دیکھے جا سکتے ہیں - حقیقت میں ہمیں غلام رہنا پسند ہے۔

مزیدخبریں