کیا پاکستان بحرِ بحران پار کر سکے گا؟

 گلوبل ویلج                
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
پاکستان میں 15اور 16 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم ممالک کا اجلاس ہو رہا ہے ۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس میں شرکت نہیں کر رہے جبکہ باقی ممالک کے سربراہان پاکستان آ رہے ہیں۔ بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر اپنے وزیراعظم کی نمائندگی کریں گے۔ ایسے ہی اجلاس کامیاب بنانے کے لیے حکومت تن من کی بازی لگا دیا کرتی ہے۔ پاکستان میں بھی اس اجلاس کو کامیاب بنانے کے لیے حکومت نے کوششوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اسلام آباد کی سیکورٹی فول پروف بنائی جا رہی ہے حتی کہ ہوٹل، ریسٹورنٹ، کیفے اور چھوٹے موٹے ڈھابے پانچ دن کے لیے اسلام آباد اورراولپنڈی میں مکمل طور پر بند رہیں گے۔ ان کے سیل کیے جانے کے اعلان نہ ہونے کے باوجود بھی اس طرح سے ان کو بند کیا گیا ہے گویا اسے سیل ہی سمجھا جائے۔ ان لوگوں کو جو دو یا تین وقت کا کھانا ڈھابوں، چھوٹے ہوٹلوں یا ریسٹورانوں اور کیفیز میں کھاتے ہیں، ان کی مشکل کا اندازہ کیا جا سکتا ہے بہرحال حکومت کسی قسم کا سیکورٹی کے حوالے سے کوئی رسک نہیں لینا چاہتی۔ اس لیے ایسے اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی طرف سے آئینی ترمیم کے خلاف جس حد تک بھی جایا جا سکتا ہے وہ جا رہی ہے، اس آئینی ترمیم میں جوڈیشل پیکیج سے تحریک انصاف متفق نہیں ہے۔ اس لیے اس کی سرتوڑ مخالفت کی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے اسلام آباد میں 4اکتوبر کو احتجاج کا اعلان عدلیہ کے ساتھ یکجہتی کے لیے کیا گیا تھا۔ تحریک انصاف کا مطالبہ یہ تھا کہ جس طرح قاضی فائز عیسیٰ کا ان کے چیف جسٹس بننے سے کوئی تین مہینے پہلے نوٹیفکیشن جاری کر دیاگیا تھا۔ منصور علی شاہ صاحب کے چیف جسٹس بننے میں اب صرف ڈیڑھ ہفتہ رہ گیا ہے لیکن ان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ اس پر تحریک انصاف کی طرف سے احتجاج کا اعلان کیا گیا تھااور کہا گیا تھا کہ جب تک منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس پاکستان تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جاتا اس وقت تک احتجاج جاری رہے گا۔ تاہم تین چار روز کے بعد یہ احتجاج ختم ہو گیا ۔ علی امین گنڈا پور کیسے خیبرپختونخواہ سے بڑے قافلے کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچے اور کس طرح سے وہ ڈی چوک سے خیبرپختونخواہ خواہ چلے گئے اور پھر ان کی طرف سے ایک ایسی جادوئی اور طلسماتی کہانی بیان کر دی گئی جس میں وہ اسلام آباد میں رینجرز اور پولیس سے بچتے بچاتے مونال کے قریب پیدل گزرتے ہوئے بعد میں گاڑی میں بیٹھ کر پشاور میں ہونے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں جا نکلتے ہیں۔تحریک انصاف کا 4اکتوبر کو شروع ہونے والا احتجاج 8تاریخ کو مفقود ہوتے ہوتے ختم ہی ہو گیا۔
 اب تحریک انصاف کی طرف سے 15اکتوبر کو اسلام آباد میں احتجاج کی کال دی گئی ہے۔ اور یہ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کا پہلا دن ہوگا۔دوسرا دن 16اکتوبر ہے۔ اس پر حکومت کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ یہ پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے۔ جب غیرملکی سربراہان نے پاکستان آنا ہے توتحریک انصاف اس اجلاس کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کی طرف سے دھمکی دی گئی ہے کہ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔وزیراعظم ،وزیراطلاعت ونشریات عطا تارڑ اور وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے تحریک انصاف کے حوالے سے سخت بیان دیئے ہیں لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی اکابرین اور زعماءکے بقول تحریک انصاف پاکستان کے خلاف دشمنی پر اتر آئی ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے یہ فیصلہ کیوں کیا گیا ۔ حکومت نے یہ اندیہ دیا تھا کہ آئینی ترمیم 17اکتوبر کے بعد اجلاس بلا کرکرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے اب یہ بیان سامنے آیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس سے قبل بھی آئینی ترامیم ہو سکتی ہیں۔ تو حکومت کی طرف سے یہ خود اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت کو مکمل طور پر اپنا فوکس اجلاس کی کامیابی کی طرف رکھنا چاہیے تھا۔لیکن درمیان میں یہ ترامیم کا پھر اس کی طرف سے جتنا جلد ممکن ہو سکتا ہے کرنے کا اندیہ دے دیا گیا ہے یہ وہ آئینی ترمیم ہے جس پر اتفاق رائے ابھی تک نہیں ہو سکا۔ جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے جہاں یہ کہا کہ شنگھائی تنظیم تعاون اجلاس سے قبل یہ آئینی ترمیم پیش کی جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ کہتے ہیں کہ ممبرز پورے ہیں ،تمام جماعتوں سے اس کے باوجود بھی مشاورت چاہتے ہیں۔ 
بلاول بھٹو زرداری نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ حکومت کے پاس نمبرز اس طرح سے پورے ہیں کہ ضمیر کے مطابق ووٹ دینے والے آپشن کو حکومت اپنے حق میں استعمال کر سکتی ہے۔گویا بلاول بھٹو زرداری جس طرح ہارس ٹریڈنگ کی بات ہو رہی ہے۔ ان کے وکیل فاروق ایچ نائیک کی طرف سے سپریم کورٹ میں کہا گیا تھا کہ فلورکراسنگ کی اجازت ہونی چاہیے۔ فلورکراسنگ، ہارس ٹریڈنگ ایک ہی چیز کے دو نام ہیںتو بلاول بھٹو زرداری آخر ایسی بات کیوں کرتے ہیں ہارس ٹریڈنگ کی، اس کی حمایت کی۔ ادھر مولانا فضل الرحمن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مسودہ ہمیں مل چکا ہے۔ آئینی عدلیہ ہو یا بنچ لچک ہونی چاہیے۔یہ وہ حکومت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ بالکل بھی یہ سختی سے یقینی نہ بنائیں کہ جو کچھ آپ نے کہہ دیا وہ پتھر پر لکیر ہے۔ تو باقی اس مسودے پر خود حکومتی صفوں میں بھی اتفاق رائے نہیں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں آئینی ترامیم پر ڈیڈلاک برقرار ہے۔ اعظم نذیر تارڑصاحب کہتے ہیں کہ یہ وہی مسودہ ہے جس میں وفاقی آئینی عدالت کی بات کی گئی ہے۔ بہرحال یہ انتظار کرنا ہے کہ حکومت آئینی ترمیم کب لے کر آتی ہے لیکن اگر یہ اسی دوران شنگھائی تنظیم تعاون اجلاس کی تیاریوں اور اس کے انعقاد کے درمیان ترمیم لائی جاتی ہے تو پھر تحریک انصاف اس کی مخالفت ہر طرح سے ہر سطح پرجا کر کرے گی اور اس کی طرف سے اسلام آباد کو اسی لیے 15اکتوبر کو بند کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ 
سیاسی رواداری کی بات کرتے ہیں، سیاسی رواداری کی ہر کوئی بات کرتا ہے لیکن اس پر عمل کرنے کے لیے یہ لوگ تیار نظر نہیں آتے۔شنگھائی تنظیم تعاون اجلاس کے موقع پر امن و امان برقرار رکھنا، فضا کو خوشگوار رکھنا یہ حکومت کی اولین ذمہ د اری ہے لیکن اس طرح کے بیانات دے کر، اس طرح کی کارروائی کرکے، جس سے لگتا ہے کہ حکومت کسی بھی صورت میں جتنا جلد ممکن ہے آئینی ترمیم کرنا چاہتی ہے۔ تو یہ کسی بھی طرح حکومت کے لیے، ملک کے لیے مناسب نہیں ہو سکتا۔رواداری کا تقاضا یہی ہے کہ اپنی بات سنائی جائے اور فریق مخالف کی بات سنی جائے اور اتفاق رائے سے ترمیم ہو جائے تو بہت بہتر ہے۔ اگر حکومت نے کھینچ تان کر یا زبردستی سے دو تہائی اکثریت بنا کر ترمیم کر لی تو یہ دیرپا کسی صور ت نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کی سیاست میں پہلے ہی نفرتیں بہت ہیں، اختلافات ذاتی دشمنی تک جا چکے ہیں ان میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی طرف سے 25اکتوبر کو ریٹائرہونے کے حوالے سے جو ریفرنس ہوگا اس کے عشایئے سے معذرت کی ہے انہوں نے کہا کہ سرکاری خرچے پر یہ ڈنر نہیں ہونا چاہیے۔قاضی فائز عیسیٰ صاحب کو حکومت کی طرف سے آئینی عدالت کا چیف بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی اور اب بھی ان کوششوں کا سلسلہ رکا نہیں ہے۔ جب کہ قاضی فائز عیسیٰ صاحب 25اکتوبر کو اپنے ریٹائر ہونے کا اعتراف کر چکے ہیں۔ اس حقیقت کو انہوں نے یا ریٹائر منٹ کی حقیقت کو قاضی فائز عیسیٰ نے قبول کر لیا ہے لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس بنانے کا نوٹیفکیشن ان کے چیف جسٹس بننے سے78روز قبل جاری کر دیا گیا تھا جب کہ جسٹس منصور علی شاہ جو سنیارٹی میں قاضی فائزعیسیٰ صاحب کے بعد سب سے اوپر ہے، ان کے چیف جسٹس پاکستان بننے کا نوٹیفکیشن ابھی تک جاری نہیں کیا گیا۔تو کیا حکومت اس تنازعے کو ختم کرنا چاہتی ہے یا مزید بڑھانا چاہتی ہے۔ پاکستان میں امن برقرار رکھنے کی ذمہ داری حکومت کے سر ہے،معاملات جمہوری انداز میں چلتے رہیں اس کو بھی حکومت کی طرف سے یقینی بنا کر ہی پاکستان میں سیاسی استحکام لایا جا سکتا ہے۔ سیاسی استحکام ہی پاکستان میں معاشی استحکام کی ضمانت ہے۔

ای پیپر دی نیشن