جنسی ہراسانی اور انسانی اسمگلنگ

Oct 15, 2024

شہباز اکمل جندران

اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
25نومبر آنے میں تھوڑے ہی دن باقی ہیں۔ یو این چارٹر کے مطابق اس دن کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو تیرش کا کہنا ہے ”دنیا خواتین کے خلاف تشدد کے سوال کو ختم کر کے اسے قصہّ پارینہ بنا دے۔“
پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں ہر گیارہ منٹ بعد کوئی نہ کوئی خاتون اپنے ہی کسی رشتے دار یا قریبی ساتھی کے ہاتھوں ریپ یا قتل ہو جاتی ہے۔ معاشی و دیگر معاشرتی مسائل کی وجہ سے تناﺅ کی بہت سی کیفیات کے باعث جسمانی و زبانی بدسلوکی میں شدت آئی ہے۔ جنسی ہراسانی نے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف آن لائن استحصال کو بھی بڑھایاہے۔
دنیا میں خواتین کی تعداد دنیا کی آبادی کا نصف ہے۔ تاہم اس نصف آبادی کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ جس کے باعث انہیں تشدد اور بدسلوکی کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ تشدد اور بدسلوکی کا یہی وہ رویہ ہے جو لڑکیوں اور خواتین کی زندگی کے ہر شعبے میں شرکت کو محدود کر دیتا ہے۔ انہیں ان کے بنیادی حقوق اور آزادی سے محروم رکھتا ہے۔ اور دنیا کو درکار مساوی معاشی بحالی اور پائیدار ترقی سے روک دیتا ہے۔ 
ذی شعور افراد کا کہنا ہے یہ ”تبدیلی لانے کے اقدامات“ کا وقت ہے۔ ایسی تبدیلی، جس سے لڑکیوں اور خواتین کے خلاف تشدد کا خاتمہ ہو۔ یہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی سب سے عام خلاف ورزی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو تیرش کے مطابق اس لعنت پر قابو پانے کے لیے سرکاری سطح پر منصوبہ بندی، مالی وسائل کی فراہمی اور طے شدہ منصوبوں پر عملدرآمد سمیت بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں نچلی سطح پر کام کرنے والوں اور سول سوسائٹی کے مختلف گروپوں اور تنظیموں کو اس صورت حال سے متعلق ہر سطح پر فیصلہ سازی میں شامل کیا جانا چاہیے۔ تمام متعلقہ قوانین پر عملدرآمد اور ان کا احترام ہونا چاہیے تاکہ تشدد سے متاثرہ خواتین اور لڑکیاں دیکھ سکیں کہ انصاف اور مدد سے متعلق ان کے حقوق ہیں اور وہ برقرار بھی ہیں۔
سیکرٹری جنرل انتونیو تیرش نے عورتوں کے حقوق کے تناظر میں دنیا کی تمام حکومتوں سے کہا ہے کہ 2026ءتک وہ خواتین کے حقوق کی تنظیموں اور تحریکوں کے لیے مالی وسائل کی فراہمی میں 50فیصد تک اضافہ کریں۔ نیز یہ کہ سب کہیں ” خواتین کے مساوی حقوق کے حامی ہیں۔“
پاکستان میں خواتین کے بنیادی معاشرتی حقوق کی بات کریں تو پنجاب پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے۔ جہاں خواتین کے خلاف جرائم تشویش ناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ 2024ءکے پہلے چھ ماہ (جنوری سے جون تک) میں خواتین کے خلاف ہراسانی، گینگ ریپ، اغوائ، غیرت کے نام پر قتل، گھریلو تشدد اور انسانی سمگلنگ سے متعلق پنجاب پولیس کے آفیشل اعدادو شمار دیکھیں تو آپ دنگ رہ جائیں گے۔ واقعات کی تعداد حالات کی سنگینی کا پتہ دیتی ہے۔
پنجاب میں جنوری سے جون 2024ءتک خواتین کو ہراساں کرنے کے 8462واقعات رجسٹرڈ ہوئے۔ تمام جرائم میں سے ”ہراسانی“ اب بہت ہی گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے۔ ہراسانی کے مرتکب افراد کا خطرہ ہر وقت، ہر جگہ موجود رہتاہے۔ گھر، تعلیمی ادارے حتیٰ کہ سرکاری اور نجی دفاتر بھی اب محفوظ نہیں رہے۔ پارکس اور دیگر عوامی مقامات پر اوباش لوگ خواتین کا پیچھا کرتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ پنجاب کی صوبائی حکومت نے ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک ”ہیلپ لائن“ قائم کر رکھی ہے۔ جہاں کال کر کے خواتین فوری مدد حاصل کر سکتی ہیں۔ تاہم متاثرہ خواتین ہراسانی کی شکایت کرنے سے ڈرتی ہیں کیونکہ انہیں یہ خوف ہوتا ہے معاشرہ انہیں ہی مورد الزام ٹھہرائے گا۔ یا شکایت درج کرانے کے بعد انہیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حقیقت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کسی بھی ایسی شکایت سے گریز کرتی ہیں۔
اعداد و شمار اور ان کی اوسط دیکھیں تو ہر ایک گھنٹے میں کم از کم دو خواتین ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں۔ تاہم خواتین کی اکثریت ایسے واقعات پر تھانے جانا تو کجا عزت کے ڈر سے گھر والوں کو بھی کچھ نہیں بتاتیں۔ ہراسانی یا ریپ کا ہر واقعہ رجسٹرڈ ہو تو مقدمات کی تعداد کہیں زیادہ نظر آئے۔
ہراسانی کے واقعات میں روز بروز اضافہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پارکس اور دیگر عوامی مقامات پر خواتین کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ سیکورٹی نہ ہونے سے ہراسانی کے واقعات بڑھ رہے ہیں اور اوباش افراد کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے آگاہی مہم کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
پنجاب میں گینگ ریپ کا ریکارڈ دیکھیں تو ا میں بھی شرمناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ صرف چھ ماہ میں گینگ ریپ کی 3449ایف آئی آرز درج ہوئیں۔ یہ ہولناک حقیقت ہے کہ ضرورت مند اور نوکری کی متلاشی لڑکیوں اور خواتین کو مختلف حیلے بہانوں سے ٹریپ کیا جاتا ہے۔ مقدمات کی اوسط دیکھیں تو ہر ایک گھنٹے میں ریپ کی ایف آئی آر تھانوں میں درج ہو رہی ہوتی ہیں۔ اگرچہ ان شرمناک جرائم پر قابو پانے کے لیے سخت قوانین موجود ہیں لیکن ان پر پوری طرح عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اس فقدان اور پراسیکیوشن میں کمزرویوں کے باعث جرم کے مرتکب افراد نا صرف سزا سے بچ جاتے ہیں بلکہ جرم کے خوف سے بھی آزاد رہتے ہیں۔ یوں متاثرہ خواتین کو انصاف کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ حوصلہ ہار دیتی ہیں۔
ایف آر آر کے اندراج سے عدالتوں تک کا سفر نہ صرف بہت طویل ہوتا ہے بلکہ متاثرہ خاتون اور ا کے خاندان کے لیے بھی ذہنی اور قلبی صدمے کا باعث بنتا ہے۔ متاثرہ خاندان کے ساتھ معاشرتی رویہ انتہائی قابل تضحیک اور اور اکثر اوقات بہت ہی ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ عزت کے نام پر متاثرہ خاتون پر اتنا دباﺅ ڈالا جاتا ہے جو بعدازاں اے مقدمے کی پیروی سے روک دیتا ہے۔
اس اہم معاشرتی مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے جس کے لیے حکومت اور سول سوسائٹی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مجرموں کو کڑی سزائیں دینے کا رواج زور پکڑ گیا۔ عدالتی نظام مضبوط ہو گیا تو امید کی جا سکتی ہے۔ اس طرح شایدان جرائم کی شرح میں کمی آ جائے۔ لوگ ایسے کسی بھی جرم سے پہلے خوف کھانے لگیں۔
ہراسانی اور گینگ ریپ کے واقعات اپنی جگہ، خواتین کے اغواءکی وارداتوں نے بھی تشویش ناک صورت حال پیدا کر رکھی ہے۔ یہ وارداتیں خطرناک حد تک بڑھ چکی ہیں۔ جنوری سے جون2024ءکے دوران صرف پنجاب میں 13810خواتین کو اغواءکیا گیا۔ جن کے مقدمات بھی درج ہوئے۔ اغواءکے مرتکب افراد کا مقصد خواتین کا جنسی استحصال ہوتا ہے یا انسانی اسمگلنگ کے لیے اے اغواءکیا جاتا ہے۔
پنجاب میں ہر گھنٹے میں تین سے چار خواتین اغواءہوتی ہیں۔ خواتین کے اغواءکی بڑی وجہ سماجی اور اقتصادی عدمِ مساوات بھی ہے۔ غریب اور بے سہارا خواتین اغواءکاروں کا زیادہ شکار بنتی ہیں جبکہ پولیس بھی ان واقعات میں بروقت کارروائی میں ناکام رہتی ہے۔مغویہ خواتین کو بازیاب کرنے کے لیے مو¿ثر حکمت عملی اختیار نہ کی جائے تو بازیابی میں اکثر ناکامی ہوتی ہے۔ جو پولیس کی کارکردگی پر بہت بڑا سوال ہے۔
غیرت کے نام پر قتل بھی بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق پنجاب میں ہر تیسرے دن ایک عورت غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہے۔انتہائی ضروری ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف سخت قانون سازی کی جائے۔ اس پر عملدرآمد بھی یقینی بنایا جائے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو اس حوالے سے ضرور اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔
پنجاب میں انسانی اسمگلنگ بھی سنگین مسئلے کے طور پر موجود ہے۔ چھ ماہ کے رجسٹرڈ اعدادو شمار کے مطابق 605خواتین کو انسانی اسمگلنگ کا شکار بنایا گیا۔ خواتین اور بچیوں کو جنسی استحصال یا جبری مشقت کے لیے اسمگل کیا جاتا ہے۔ یہ خواتین ملک کے اندر اور بیرون ملک اسمگل کی جاتی ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق ہر روز پنجاب میں تین خواتین انسانی اسمگلروں کا شکار بن رہی ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کی بڑی وجہ غربت اور بے روزگاری ہے۔ معاشی طور پر پسماندہ علاقوں کی خواتین کو بہتر روزگار کے جھوٹے وعدے کر کے اسمگل کیا جاتا ہے۔ ایف آئی اے اب تک انسانی اسمگلنگ کے اس مکروہ دھندے کو روکنے میں ناکام ہے۔

مزیدخبریں