بازگشت … طارق محمود مرزا
tariqmmirza@hotmail.com
ہر کوئی مست مئے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو یہ اندازِ مسلمانی ہے
حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
یہ اشعار اس شاعر کے ہیں جس نے اپنی شاعری سے بیسویں صدی میں ایک انقلاب آفریں کام لیا۔میری مراد شاعرِ مشرق حکیم الامّت حضرت علامہ اقبال سے ہے جنھوں نے اپنی شاعری اور نثر سے اسلام کا پیغام پوری دنیا میں عام کیا۔ انھوں نے اپنے علم اور تفکرسے اسلام کی ایسی تشریح و توضیح فرمائی کہ اسے زندہ، توانا اور جامع دین ثابت کیا اور اس کی ایسی بھرپور ترجمانی کی اور اس کی عظمت کے ایسے گیت گائیکہ مسلمانوں کو اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہونے لگا۔ ورنہ انگریزوں کی غلامی میں رہ کر بہت سے لوگوں پر جہاںمغربی تہذیب حاوی ہونے لگی تھی وہاں ان کا ایمان بھی کمزور پڑ گیا تھا۔ وہ اسلام کو از کار رفتہ سمجھنے لگے تھے۔ جنگ آزادی کے بعد بحثیت قوم مسلمان قوم کا مستقبل انتہائی مخدوش تھا۔ وہ انگریزوں اور ہندووں کی چکی میں گھن کی طرح پس رہے تھے اور اسی کو اپنا مقدّر سمجھے بیٹھے تھے۔ ایسے میں سرسید احمد خان کے بعد علامہ اقبال ہی وہ شخصیت تھی جس نے اپنی ولولہ انگیز شاعری سے مسلم امّہ کے تنِ مردہ میں جان ڈال دی۔ بے شک ان کے کلام میں جو سوزِ حیات اور روحِ انسانی کا نغمہ موجود ہے وہ نہ صرف ہماری فکر کی آبیاری کرتا ہے بلکہ عشق و مستی اور جذب و جنون بن کر لہو گرماتا رہے گا۔اقبال مشرق و مغرب، ماضی حال اور مستقبل کے شاعر تھے جیسا کہ انھوں نے فرمایا تھا:
حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے
عکس اس کا میرے آئینہ ادراک میں ہے
اقبال شاعری برائے شاعری کے قائل نہیں تھے بلکہ شاعری ان کا ذریعہ پیغام تھی، فرماتے ہیں:
میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرمِ راز ِدرون ِ میخانہ
یوں تو اقبال نے بنی نوع انسان کی عظمت و سربلندی عطا کرنے والے ہر موضوع پر خامہ فرسائی کی لیکن ان کا روئے سخن مومن اور ان کا موضوع خاص اسلام اور قرآن ہے۔انھوں نے پہلے خودقرآن کو دل میں بسایا اس سے نورِ بصیرت حاصل کیا اور پھر اسے منبع علم و حکمت اور مینارہ رشد و ہدایت ثابت کرنے کے لیے نظم و نثر دونوں سے بھرپور کام لیا۔انھوں نے قران مجید کو بنی نوع انسان کی ہدایت،رہنمائی، حکمت اور دانائی کا ذریعہ بتایا۔فرماتے ہیں۔
آں کتاب زندہ قرآن حکیم ( وہ کتاب زندہ جسے قرآن حکیم کہتے ہیں)
حکمت و لایزال است و قدیم ( اس میں حکمت کی باتیں درج ہیں جو لازوال اور قدیم ہیں)
نسخہِ اسرار تکوین حیات (قرآن زندگی کے بھیدوں کا نسخہ ہے)
بے ثبات از قوتش گیرد ثبات ( بے ثبات بھی اس کی وجہ سے ثابت قدم ہو جاتا ہے)
حرف و را ریب نے تبدیل نے (اس کے حروف میں نہ کوئی شک ہے نہ تبدیلی ہو سکتی ہے)
آیہ اش شرمندہ ای تاویل نے (اس کی آیاتِ بینات کی کوئی غلط تاویل نہیں ہو سکتی ہے)
اقبال نے مشرق و مغرب کے جید علماءکے علم سے اکتساب فیض کیا جیسے نطشے، نشٹے،برگساں، کانٹ، رومی،راضی،غزالی،عطار اور حکیم بر گسائی سے اقبال نے خوشہ چینی کی، جس کا وہ برملا اعتراف کرتے تھے۔ رومی کو تو وہ مرشد مانتے تھے۔ فرماتے ہیں۔
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و سازِ رومی،کبھی پیچ و تابِ راضی
ان سب کے باوجود ان کی فکری اساس خالق کائنات کی تخلیق کردہ کتاب قرآن حکیم ہے جو نہ صرف ان کے فکر و فلسفہ کا محور و مرکز ہے بلکہ ان کا موضوع سخن بھی ہے۔کلام اقبال کہیں براہ راست اور کہیں بالواسطہ کلام اللہ سے ہی ماخوذ ہے۔ علامہ اقبال نے معاشیات، فلسفہ، قانون اور ادب سمیت متعدد بحر ِعلوم کی غواصی کی۔مشرق و مغرب کی عظیم درس گاہوں سے علم کی روشنی سمیٹی۔ لیکن جس کتاب کو تاحیات انھوں نے اپنے سینے کے ساتھ لگا کر رکھا اور اس کو اپنی فکر کا محور و مرکز بنایا وہ قرآن پاک ہے۔ قرآن ان کی سوچوں، ان کی شاعری اور ان کی فکر کا مرکزی ماخذ تھا۔ اقبال کا قرآن سے گہرا تعلق تھا اور یہ ربط ساری زندگی قائم رہا۔بچپن سے جوانی اور بڑھاپے اور بستر مرگ تک قرآن ان کا رفیق ورہنما رہا۔بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ عمر کے آخری برسوں میں انہوں نے بڑی محنت سے جمع کی ہوئی تمام کتابیں اپنے کمرے سے اٹھوا دی تھیں اور ان کے زیر مطالعہ صرف ایک کتاب رہتی تھی جو کہ قرآن حکیم تھا۔وہ صبح،دوپہر شام کئی مرتبہ قران مجید منگواتے۔ خوش الحانی سے تلاوت فرماتے۔ اس دوران فرط جذبات سے ان کے عشق ابل پڑتے۔ حتی کہ قرآن کے صفحات بھیگ جاتے جنہیں دھوپ میں رکھ کر سکھا یاجاتا۔ علامہ کی قرآن سے محبت اور رغبت کا آغاز بچپن سے ہو گیا تھا جس کا سہرا ان کے صوفی منش والد شیخ نور محمد کے سر جاتا ہے۔ اقبال نے بتایاکہ لڑکپن میں ایک مرتبہ جب اقبال قرآن کی تلاوت کر رہے تھے تو ان کے والد نے ہونہار بیٹے کو نصیحت کی کہ بیٹا قرآن کی تلاوت اس طرح کرو جیسے یہ تمہارے قلب پر نازل ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ صاحبِ قرآن کی محبت اور عشق دل میں سجا لو پھر تمہیں قرآن پڑھنے کا صحیح سرور آئے گا۔فرمانبردار فرزند نے باپ کے نصیحت پلے باندھ لی اور تاحیات قرآن مجیدسے ایسا ہی گہرا قلبی تعلق رہا۔
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول ِکتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب ِکشاف
والد محترم کی اس نصیحت کے دوسرے حصے یعنی عشقِ نبی کے بارے میں فرمایا۔
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی ہے حجاب
یہاں شوق سے مراد عشق رسول ہے۔یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ اقبال جیسا مشرق و مغرب کے علم کا حامل یورپ پلٹ قانون دان قرآن کا ایسا عاشق بنتا ہے کہ اسے صرف اسی میں ہی اماں ملتی ہے۔
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم ِخانہ خراب کو تیرے عفو ِبندہ نواز میں
اقبال جیسے عالم فاضل شخص نے قران کی جو تشریح توضیح اور وکالت کی ہے اس نے انہیں بیسویں صدی میں اسلام اور قرآن کا سب سے بڑا مبلغ اور مفسر بنا دیا ہے اگرچہ انہوں نے باقاعدہ قرآن کی تفسیر نہیں لکھی لیکن اقبال کا کلام اور پیام قرآن کے بیان پر مبنی ہے۔ اسے سمجھنے اور اپنے کاسہ دل میں سمیٹنے کے لیے کلام اقبال اور قرآن دونوں کا متوازی مطالعہ ضروری ہے۔ خود اقبال نے اپنے کلام کو قرآن سے ماخوذ قرار دیا ہے اور ایسی قسم دی کہ کوئی مسلمان اس کی تردید نہیں کر سکتا، فرماتے ہیں۔
گردلم آئینہ بے جوہرست۔ ( اگر میرے دل کا آئینہ بے جوہر ہے)
ور بحرفم غیر قرآن مضمر است۔ (اور میرے کلام میں قرآن پاک کے علاوہ کوئی اور حرف چھپا ہے)
پردہ ناموس فکرم چاک کن (تو ہے اللہ کے رسول میری فکر کے شرف کا پردہ چاک کر دیجئے)
ای خیاباں راز خارم پاک کن۔ (اور اس خیا باں کو میرے کانٹے سے پاک کر دیجئے)
روز محشر خوار و رسوا کن مرا۔(مجھے قیامت کے دن خوار و رسوا کر دیجئے)
بے نصیب از بوسہ پاکن مر۔ا ( اور مجھے اپنی قدم بوسی سے محروم کر دیجئے)
بے شک قرآن میں وہ راز پوشیدہ ہے جو مومن کو حقیقی اور سچا مومن بناتا ہے۔یہ مومن کی شان ہے کہ وہ اپنی ذات کو قرآن میں فنا کر دیتا ہے اور قرآنی صفات مومن کی ذات میں بھی ہویداں ہونے لگتی ہیں۔
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
فطرت کا سرودِ ازلی اس کے شب وروز
آہنگ میں یکتا، صفت میں سورہِ رحمٰن
اقبال جیسے خود کے قرآن کے عاشق تھے اور اس سے قلبی، روحانی اور علمی تسکین و استفادہ کرتے تھے،یہی سبق انھوں نے دوسروں کو بھی دیا۔قرآن کی عظمت بیان کر کے اس میں غوطہ زن ہونے کی دعوت دیتے ہیں یہ ان کا درد مندانہ دعائیہ پیام ہے۔
قرآن میں ہو غوطہ زن ہے مردِمسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّت کردار
(مضمون نگار تین دہائی سے آسٹریلیا میں مقیم ہیں، حیات و افکار اقبال، سمیت کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اقبال اسٹڈی سرکل آف آسٹریلیاکے بانی اور مہتمم ہیں )