منگل ‘11 ربیع الثانی 1446ھ ‘ 15 اکتوبر 2024

Oct 15, 2024

دوسرے ٹیسٹ کیلئے ٹیم کا اعلان‘ بابر‘ شاہین‘ نسیم کو ریسٹ دے دیا گیا۔
 ہر مرض کا علاج موجود ہےجو کرنا ہی پڑتا ہے۔ بس دھیان رہے کہ علاج کرنے والے کوالیفائیڈ ڈاکٹر ہوں‘ گلی محلے کے عطائی نہیں۔ ورنہ جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ اب پی سی بی کے نورتنوں نے انگلینڈ کیخلاف دوسرے میچ کیلئے اپنی طرف سے بہترین ٹیم مرتب کی ہے۔ بابراعظم‘شاہین آفریدی‘ نسیم شاہ کو ٹیم سے باہر بٹھا کر آرام دیا گیا ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں‘ اس سے ان کو ریلیف ملے گاوہ کچھ آرام کریں گے۔ مگر انکی غیرموجودگی سے ٹیم پر جو پریشر پڑے گا‘ ” کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں“ اب چونکہ پی سی بی کے تمام مدارالمہام‘ صدرالصدور‘ سرجن اور فزیشن امراض خاص و عام سر جوڑ کے بیٹھے ہیں تو ان کے فیصلے بھی انکی طرح ہی بے مثال ہونگے۔ یا تو مریض کا دم بحال ہو گا یا مکمل نکل جائے گا۔اب کامل آرام آئیگا یا وہ مکمل لاعلاج ہی رہے گا۔ جلد پتہ چل جائے گا۔ ہمارے ہاں اب تک تو ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“ والا فارمولہ ہی سامنے آتا رہا ہے۔ چنانچہ آج تک مریض محبت وینٹی لیٹر پر ہی پڑا نظر آتا ہے۔ اصلاح یا علاج کی کوئی کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔ ہاں البتہ سب معالجین کی طرف سے اپنے اپنے پسندیدہ مریض یعنی کھلاڑی کو اچھی کارکردگی والا ہیرو تمام خامیوں سے پاک قرار دینے کا نسخہ اب لگتا ہے زیادہ کامیاب نہیں رہے گا۔ اب کئی کھلاڑی باہر آرام کیلئے بیٹھنے والوں کے درد میں بولیں گے۔ کئی آفیشل اپنے علاج کے حق میں بات کرینگے۔جبکہ میدان میں اترنے والی ٹیم کارکردگی کی اصل کہانی سنائے گی۔ اس عارضی سرجری کے بعد اگر مرض میں افاقہ ہو جائے تو یہ اچھی بات ہے ورنہ شاید پھر کوئی نیامعالج ڈھونڈنا پڑے گا۔ دعا ہے انگلینڈ کیخلاف ٹیسٹ میں ہماری ٹیم اچھی کارکردگی دکھائے اور پہلی شکست کا داغ دھونے میں کامیاب ہو اور بڑے بڑے ہیروز کے بغیر بھی ثابت کرے کہ ٹیم کا ہر کھلاڑی ہیرو ہوتا ہے۔ کوئی ایک ہی نہیں۔
کراچی میں، سندھ رواداری مارچ پر لاٹھی چارج‘ درجنوں شرکاءگرفتار۔
جہاں الٹی گنگا بہتی ہو وہاں کسی غلط بات کو غلط کہنا بھی غلط ہی لگتا ہے۔ سندھ صوفی سنتوں محبت کرنے والوں کی سرزمین ہے‘ یہاں صدیوں سے امن و رواداری جس کا درس عثمان علی مروندی، شاہ لطیف بھٹائی‘ سچل سرمست اور دیگر صوفی دیتے آئے ہیں‘ سادھو بیلا سے لے کر تھر‘ عمرکوٹ‘ مٹھی تک جہاں جائیں‘ ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ امن اور بھائی چارے کی فضا میں رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جبری مذہب کی تبدیلی کا مسئلہ اچھا خاصہ تنازعہ بنا رہا ہے۔ اب توہین مذہب کی وجہ سے اندرون سندھ سنگین نوعیت کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے سوات میں سیالکوٹ کے نوجوان کو اسی الزام پر زندہ جلا کر مارا گیا‘ چند دنوں قبل کوئٹہ کی جیل میں بند اسی الزام میں قیدی پولیس والے کے ہا تھوں قتل ہوا اور اب خیر پور سندھ میں ایک ڈاکٹر کو اسی الزام میں پکڑ کر پولیس مقابلے میں مار دیا گیا ہے جس کے بعد مشتعل افراد نے اس کی لاش جلا دی اسے دفنانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ اس پر گزشتہ کئی روز سے اندرون سندھ احتجاج اور ہڑتال ہو رہی ہے۔ اب سندھ رواداری کمیٹی نے پریس کلب کراچی کے باہر ریلی نکالی تو دفعہ 144 کے تحت پابندی کے حوالے سے پولیس نے جس طرح ان مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا‘ انہیں گرفتار کیا‘ اگر وہ یہی فرض منصبی جرائم پیشہ افرد اور گروہوں کیخلاف بھی ادا کریں تو جرائم کم ہو سکتے ہیں۔ مگر پولیس کو سارے فرائض نہتے مرد و خواتین کو دیکھ کر ہی یاد آتے ہیں اور وہ ان پر پل پڑتی ہے۔ یہی گزشتہ روز کراچی میں ہوا۔ کیا یہ ظلم نہیں جہاں مشتعل لوگ ہوں یا وردی والےایک شخص کو بقول انکے واصل جہنم کرنے کو تو آزاد ہیں مگر اس قسم کے واقعہ کی روک تھام کے قانون پر عملدرآمد کرنے میں ناکام ہیں۔ الٹا قانون کی خلاف ورزی پرآواز اٹھانے والوں کا سواگت پولیس ڈنڈوں سے‘ گرفتاریوں سے کرتی ہے۔ کیا یہی محبت اور امن کی بات کرنے والوں کی سرزمین میں بسنے والوں کا طرز عمل ہے۔ 
علاقے سے فوج نکالی جائے‘ پاک افغان بارڈر مکمل کھول دیا جائے‘ پشین کی جرگہ میں درفطنیاں۔ 
 لیجے بلاخر بلی تھیلے سے با ہر آہی گئی۔کہاں گئے اس جرگے کی اجازت دینے اور ان سے بات چیت کے دعوے کرنے والے، سقراط، بقراط، افلاطون اور درشنی پہلوان‘ یہاں تو یوں لگ رہا تھا یہ خیبر پی کے میں پشین کی کالعدم تنظیم کا جرگہ نہیں تھا‘ پلٹن میدان میں مجیب الرحمان بول رہا تھا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس جرگے کا ذمہ وزیراعلیٰ گنڈاپور نے لیا تھا کہ ان کو جا کر منا لوں گا۔ اور وہاں 10 یا 20 ہزار کے مجمع میں بیٹھے کسی سیاست دان اور حکومتی فرد نے پشین کی بکواس پر اسے ٹوکا تک نہیں۔ جواب تک نہیں دیا۔ کم از کم اٹھ کر باہر ہی آجاتے۔ کسی بھی ملک کے توڑنے کی کوئی باشندہ بات کرتا ہےتو اسے غدار کہا جاتا ہے‘ ہمارے ہاں پابندی ہے‘ ایسا نہ بولو۔ شاید یہی بات ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی بھی شیخ مجیب کو ہیرو قرار دیتے تھے۔ اب جو جرگہ میں کہا گیا وہ تو 1947ءکے بعد سے آج تک پاکستان کو تسلیم نہ کرنے والے شکست خوردہ عناصر کہتے آرہے ہیں۔ ملکی سلامتی کے محافظ ادارے یعنی فوج کو ان کے من پسند علاقے سے نکالنے‘ ڈیورنڈ لائن ختم کرنے‘ آرپار جانے اور تجارت یعنی اسلحہ اور منشیات کے سمگلنگ کی کھلی چھوٹ دینے‘ علاقے میں اپنی مرضی کے قوانین اور عدالتیں بنانے‘ اپنا لشکر تیار کرنے کا اعلان کیا علیحدگی کی سازش نہیں۔یہی کچھ مشرقی پاکستان میں رچایا گیا۔نا انصافی اورظلم کی کہانیاں گھڑکر بنگالیوں کو گمراہ کیا گیا اب۔طورخم سے چمن تک اپنی من مانی ،فوج کو نکالنےکی باتیں کیا ریاست کے اندر ریاست کا باغیانہ اعلان نہیں۔ کیا رہ گیا ہے اب منظور پیشین کے خبث باطن کو بے نقاب کرنے کیلئے۔ پورے جرگے میں کسی کو ہمت نہیں تھی‘ پاکستان کی دھرتی پر اپنا پرچم لہرائے۔ اب بھی کیا انکے ہمدرد خاموش رہیں گے۔ ان سب کو وہاں جانا چاہیے جہاں یہ رہنا چاہتے ہیں پاکستان میں رہ کر کسی کو ملک سے نفرت‘ فوج سے نفرت‘ پرچم سے نفرت‘ آئین سے نفرت‘ قانون سے نفرت حتیٰ کہ عوام سے نفرت کا درس دینے کی اجازت نہ دی جائے۔ اب کہاں گئے وہ لوگ اور مذہبی و سیا سی جماعتیں جو دن رات استحکام پاکستان کانفرنسں کرتے نہیں تھکتیں۔ وہ ان ذہنی گمراہو ں کے خلاف منہ کیوں نہیں کھولتے۔ 24 کروڑ عوام کے خلاف یہ 15 ہزار افراد کی گمراہ سوچ کوئی حیثیت نہیں رکھتی‘ مگر چلیں اس طرح ان ملک دشمنوں کے عزائم تو بے نقاب ہو گئے۔۔ 
تعلیم کے حوالے سے پنجاب اور سندھ کی حکومتوں میں نئی بحث۔
کارکردگی ٹکے کی نہیں اور بحث سے کسی کو فرصت نہیں۔سندھ اور پنجاب کے وزیروں کو تعلیم سے اتنی محبت ہو گئی ہے، کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ اسکے باوجود پھر یہ شرح خواندگی روزبروز نیچے کیوں جا رہی ہے۔ باتیں سن کر تو لگتا ہے سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کا سارا زور تعلیم عام کرنے میں ہے مگر اصل حقائق دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اصل زور جہالت عام کرنے پر لگایا جا رہا ہے۔ سندھ کا وزیر کہتا ہے کہ پنجاب میں سوا کروڑ بچے سکول نہیں جاتے‘ جواب میں پنجاب کی وزیر فرما رہی ہیں کہ سندھ کے سکولوں میں بچے تو ہیں ہی نہیں‘ البتہ گائے‘ بھینسیں‘ گدھے گھوڑے ضرور باندھے جاتے ہیں۔ شکر ہے اس بحث میں ابھی تک بلوچستان اور خیبر پی کے والے شامل نہیں ہوئے ورنہ وہ مقابلہ حسن بدکارکردگی جیت سکتے ہیں۔ کیونکہ وہاں تو سکولوں کی کھڑکیاں‘ دروازے تک لوگ اکھاڑ کر لے جاتے ہیں یا انہیں بم سے اڑا دیتے ہیں‘ شاید وہ ان کھنڈرات کو اپنے علاقوں میں بطور یادگار رکھ کر اپنی علم دوستی کا ثبوت دینا چاہتے ہیں۔ جب تک تعلیم کا کاروبار نجی شعبہ کے پاس رہے گا تو ملک میں فیسوں کی شرح میں تو اضافہ ممکن ہے مگر شرح تعلیم میں نہیں کیونکہ کروڑوں لوگ مہنگی فیسوں اور تعلیمی اخراجات کی وجہ سے بچوں کو داخل نہیں کروا سکتے۔ ہاں اگر سرکاری سکولوں کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک ختم کرکے ان کو پہلے کی طرح واقعی علم کا گہوارہ بنایا جائے‘ تعلیم کو تجارت نہیں عبادت سمجھ کر بچوں کو لکھایا پڑھایا جائے تو کروڑوں بچے یوں دکانوں‘ گیراجوں‘ فیکٹریوں‘ فٹ پاتھوں پر محنت مزدوری کرتے نظر نہیں آئیں گے۔ کاغذوں میں نہیں حقیقت میں ہر بچے کے ہاتھ میں قلم اور کتاب دیکر ہی ہم تعلیمی انقلاب لا سکتے ہیں۔

مزیدخبریں