ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں

فرانسیسی ادیب موپساں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وطن عزیز کے ختم نہ ہونے بلکہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنیوالے نازک حالات کو سامنے رکھیں تو جہاں اور بہت سی باتیں یاد آ جاتی ہیں وہاں موپساں کا افسانہ نیکلس (Nacklace) بھی یادوں کے کئی دریچے وا کر دیتا ہے اور عدم کے مطابق یادوں کے اتنے دریچے ستارے بن کر صراحی میں در آتے ہیں کہ صراحی کہکشاں ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
نیکلس ایک ایسی حسین خاتون کی کہانی ہے جس کی مالی خواہشیں اس کی چادر اور شوہر کی آمدن سے بھی کہیں بڑی اور توانا تھیں ایک پارٹی پر جانے کیلئے جیسے تیسے نئے اور اچھے کپڑوں کا انتظام تو ہو گیا لیکن معاملہ جیولری پر آکر اٹک گیا۔ بڑی بحث اور کوششوں کے بعد بات اس پر آکر ٹھہری کہ خاتون اپنی ایک امیر دوست سے ہیروں کا ہار ادھار مانگ لے۔ چنانچہ نفیس لباس اور مانگے کا ہار گردن کے گرد حمائل کرکے خاتون اس تمکنت سے پارٹی میں جاتی ہے جیسے کوئی اس دھج سے مقتل میں جاتا ہے کہ شان سلامت رہتی ہے لیکن بد قسمتی سے پارٹی کے بعد اس خاتون کی شان سلامت نہیں رہ پاتی کیونکہ ہار کہیں کھو جاتا ہے۔ پھر وہی ہوتا ہے جو جھوٹے رعب ڈالنے والوں یعنی ہماری اشرافیہ کے ساتھ عالمی طور پر ہوتا ہے۔ اس کا شوہر تمام جمع پونجی لٹا کر، قرض کے جام لنڈھا کر اور گھر کی بچی کچھی چیزیں بیچ کر ایک ملتا جلتا ہار خریدنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو امیر خاتون کو شکریہ نما حسرتوں کے ساتھ واپس کر دیا جاتا ہے۔ 10 برس بعد اس خاتون کا اپنی امیر دوست سے سامنا ہوتا ہے تو وہ زندگی کی چکی میں پس کر اپنی تمام رعنائی، حسن اور جوانی کھو چکی ہوتی ہے۔ امیر دوست پہلے تو اسے پہچانتی نہیں پھر حیرت اور افسوس کے ساتھ اسکی اس حالت زار کے بارے میں پوچھتی ہے تو ماضی کی حسین خاتون بڑی غمناکی سے اپنی بپتا سنا دیتی ہے جس پر امیر خاتون انتہائی ترس بھرے جملے ادا کرکے بتاتی ہے کہ وہ ہار تو نقلی تھا۔ یہ سن کر کبھی حسین رہنے اور ہار کی رقم اکٹھی کرنے کے غم میں بوڑھی ہو جانے والی خاتون کی کیفیت منیر نیازی کے دریا پار اترنے والے جیسی ہو جاتی ہے کہ جسے ایک دریا کے بعد معلوم پڑتا ہے کہ ابھی ایک اور دریا کا سامنا باقی ہے۔ 
ایک نازک دور سے دوسرے نازک دور اور پھر نہ تھمنے والے نازک ادوار کے سلسلوں سے گزرنے والی پاکستانی قوم کو ہرنازک دور کے بعد ملنے والے نقلی نیکلسوں کا بڑا وسیع تجربہ اور ہمارے ارباب اختیار کو بانٹنے میں زبردست مہارت ہے۔ وطن عزیز کا کوئی کونہ، کوئی کھدرا، کوئی محکمہ، کوئی ادارہ ایسا نہیں جو حقیقتوں سے دور نقلی نیکلس کی کہانی نہ سنا رہا ہو۔ ہر ادارے کو درپیش سنگین مسائل تو اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں لیکن ان پر چھائی نقلی نیکلسوں کی تاریکیاں ایک جیسی گھنی اور ہولناک ہیں۔ ہر محکمہ ”عوام الستیاناس“ کو ایسا چمکدار نیکلس دکھانے میں یدطولیٰ رکھتا ہے کہ اس کی آس میں عوام تن، من، دھن، جمع پونجی غرض سب کچھ قربان کر دیتے ہیں اور جب اسے پاکر چکا چوند کے نیچے اصلیت دیکھتے ہیں تو بجلی کے بل اور الابلا قسم کے ٹیکسوں کے سوا کچھ بھی برآمد نہیں ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے ادارے، محکمے عوام کو ریلیف دینے کیلئے کیوں نہیں بنائے گئے، ملک کے اصل مالکوں کو ہر دروازے کے باہر ”اندر آنا سختی سے منع ہے“ لکھا کیوں ملتا ہے۔ عوام کے خادم بادشاہ وقت بننے کیلئے جوڑ توڑ میں مصروف کیوں رہتے ہیں؟ اور تو اور بنیادی انسانی حقوق کا واسطہ دیکر آئی پی پیز کے خلاف دائر کی جانیوالی درخواستیں پہلی ترجیح کے طور پر کیوں نہیں سنی جاتیں۔ کوئی ہمارے ووٹ کو عزت دینا چاہتا ہے تو کوئی ہمیں حقیقی آزادی دلانے کا کام شروع کرنا چاہتا ہے کوئی ایک اور بھی ہے جو ہروقت باور کراتا ہے کہ مرنیوالا زندہ ہے لیکن یہ سب ملکر بھی عوامی دلچسپی کی بحثیں اقتدار کے ایوانوں میں کیوں شروع نہیں کرتے؟ منتخب ایوانوں میں ”پیا من بھانے والی“ قانون سازی ہی کیوں ہوتی رہتی ہے اور ہر کوئی اپنا کام چھوڑ کر دوسرے کو درس کیوں دیتا رہتا ہے۔
اگر سب اچھا چل رہا ہے تو پھر لوگوں کو سسٹم پر اعتماد کیوں نہیں اور جس سسٹم پر عوام کو ہی اعتماد نہ رہے تو کیا اس کے سہارے ”نیاّ“ پار لگائی جا سکتی ہے۔ یہ بڑے عام سے سوال ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے جن سے پوچھے جا رہے ہیں ان کیلئے اتنے مشکل ہیں کہ 77 برس میں کوئی معقول جواب نہیں مل سکا اور اشرافیہ کی صورت دیکھ کر معلوم پڑتا ہے کہ آئندہ بھی ملنا مشکل ہے ابھی تک وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے جب بہت بااثر وزیر با تدبیر کی محفل سجی تھی یہ وزیر بھی قلم کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے تھے اپنا جان کر ایسے ہی سوال پوچھ بیٹھا تھا کہ ایک انتہائی سینئر پیٹی بھائی نے شفقت آمیز مسکراہٹ سجا کر کہا تھا کہ ”ایسے سوال نہ پوچھیں جن کے جواب نہیں ہوا کرتے“ تھے۔ کئی برس بیت گئے تب سے اب تک ہمارے یہ سادہ سے سوال ہمارے ذہن سے نکل کر اشرافیہ کے کسی نمائندے کے طواف کو نکلتے ہیں تو بے نیل و مرام اسی طرح واپس آ جاتے ہیں جیسے گئے تھے۔ ایسے سوال پوچھنے والوں کو سوشل میڈیا پر پذیرائی ملے تو ملے ”سنجیدہ“ محفلوں کیلئے ”ان فٹ“ کا سرٹیفکیٹ مال مفت کی طرح عطا ضرور ہو جایا کرتا ہے۔ 
کیا یکسانیت بھری بے مقصد زندگی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ رنگ لائے گی ہماری ”سوال“ مستی ایک دن لیکن زندگی ایک بازیچہ اطفال بن کر شب و روز تماشے پر تماشا دکھانے میں مصروف رہتی ہے۔ پھر ذہن کے کسی گوشے میں شکسپیئر نمودار ہوتا ہے جو کہتا ہے کہ ”کل ایک نیا دن ہوگا(Tommorrow is another day ) ہم کان پر قلم رکھ کسی اور ”نیکلس“ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ایڈہاک ازم کی چوری اور ڈنگ ٹپاو¿ حربے ہمارے رگ و ریشے میں اس طرح اتر چکے ہیں جیسے کوئی شکست خوردہ لشکر میدان جنگ سے منہ موڑ لیتا ہے۔ 
قوموں کی زندگی میں ترقی کیلئے دوطرح کی پالیسیوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے ایک شارٹ ٹرم پالیسی جو فوری ریلیف دے سکے اور دوسری لانگ ٹرم پالیسی جو انتہائی مضبوط بنیاد فراہم کر دے۔ 77 برس میں لانگ ٹرم پالیسیوں کے تسلسل کا کوئی سرا ہی تلاش کرکے دکھا دیں دودھ کی نہر کھودنا اس سے انتہائی آسان لگے گا۔ ملک تو ایک طرف اداروں کے ”حاکم‘ بدل جائیں تو پالیسیاں بھی موسموں کی طرح انگڑائی لیکر بدل جایا کرتی ہیں۔ لگتا ہے ہم سب کے اندر ایک مستقل ”یوٹرن“ رہتا ہے۔
 ڈنگ ٹپاو¿ پالیسیوں والے کرتب ضرور جاری رکھیں لیکن پہلے والوں کے اچھے کاموں کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں بلکہ ان اچھے بچوں کی طرح دوسروں کے اچھے کام اسی طرح تسلیم کریں جس طرح آپ اپنے بچوں کو اچھی باتوں پر عمل کرنے کی نصیحتیں کرتے ہیں۔اردگرد چھائی جہالت، ہٹ دھرمی اور کالونیوں والی تاریکیاں دور کر دیں، معیشت ہو یا سیاست یا پھر معاشرہ سب کو بہتری کیلئے اچھی پالیسیوں کا تسلسل چاہئے۔ سیاسی خول کو ایک طرف رکھ کر ملک کیلئے ایک دوسرے کو گلے لگائیں ورنہ زمانہ قیامت کی چال چل جائے گا اور وقت پلوں کے نیچے سے اتنا پانی گزار دے گا کہ پھر اسے واپس لانا ممکن نہیں رہے گا اور خدانخواستہ سارا کھیت چگنے کیلئے چڑیوں کے سپرد کرنا پڑے گا۔
معاملات کو جوں کا توں رکھنے کے خواہش مندوں کیلئے فراز کا ایک شعر پیش خدمت ہے۔
ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں کہ فراز 

ای پیپر دی نیشن