نگوڑی سیاست اور خواہشات نے پاکستان کا کیا حشر کر دیا ہے۔ ہم سب کچھ اپنے ہاتھوں سے تباہ کیے جا رہے ہیں اور توقع کر ریے ہیں کہ بہت جلد اچھے دن آنے والے ہیں۔ گھر کے افراد کی کثیر تعداد کو معاملات سے لاتعلق رکھ کر گھر کو نہیں چلایا جا سکتا اس لیے ضروری ہے کہ کوئی نہ کوئی ایسی راہ نکالی جائے جس میں اہل خانہ کو اعتماد میں لیا جائے۔ بےشک ان کی مرضی پوری نہ کی جائے لیکن ان کو کوئی نہ کوئی آسرا تو دیا جائے۔ انھیں اتنا سا مطمئن تو کر دیا جائے کہ وہ شور شرابہ کرنے کی بجائے خاموش تو ہو جائیں۔ پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہو رہا ہے اور اسلام آباد تختہ مشق بنا ہوا ہے۔ 90ءکی دہائی تک اسلام آباد بڑا پر سکون شہر تھا اسلام آباد کے باسیوں نے کبھی دھرنے اور احتجاجوں کا مزہ نہیں چکھا تھا زیادہ سے زیادہ کسی ملک کے سفارت خانے میں کوئی احتجاجی مراسلہ یا یاداشت جمع کروانے کے لیے چند لوگ اکٹھے ہو جاتے تھے جو احسن انداز میں سفارت خانے تک جاتے اور خط پکڑا کر واپس آ جاتے۔ اس وقت تک سیاست کے دو ہی بڑے مراکز تھے ایک لاہور اور دوسرا کراچی۔ تیسرا لیاقت باغ راولپنڈی پشاور اور کوئٹہ میں سیاسی احتجاج یا جلسے جلوس کم ہی ہوتے تھے۔ لیکن اب تو وفاقی دارالحکومت میں جب تک ناطقہ نہ بند کر دیا جائے کہتے ہیں مزہ ہی نہیں آیا۔ اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کا سب سے بڑا مسلہ جلسے جلوسوں اور احتجاجوں سے نمٹنا ہے۔ پاکستان میں انصاف کی صورتحال سے سب آگاہ ہیں۔ جس معاشرے میں انصاف نہیں ہوتا وہاں بیزاری اور اضطراب رہتا ہے اور ناانصافی کے اثرات دوسرے طریقوں سے نمودار ہوتے ہیں۔ لوگ اپنا کتھارسس کرنے کے لیے اِدھر ا±دھر ٹکریں مارتے ہیں۔ احتجاج بھی اسی صورت میں ہوتے ہیں جب کسی کی بات نہیں سنی جاتی۔ دنیا میں احتجاج ہوتے ہیں جہاں لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ کاروبار زندگی بھی چلتا رہتا ہے کوئی توڑ پھوڑ نہیں کرتا۔ وہاں لوگ سیاہ پٹیاں باندھ کر باہر کھڑے ہو جائیں تو حکومتوں کو وخت پڑ جاتا ہے لیکن پاکستان کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ جب تک گھیراو¿ جلاو نہ ہو گاڑیاں نہ توڑی جائیں ٹریفک بند نہ ہو لوگوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے کاروبار زندگی رک نہ جائے اتنی دیر نہ حکومتوں کے کانوں پر جوں رینگتی ہے نہ مظاہرین کی تسلی ہوتی ہے۔ تحریک انصاف احتجاج اور عوامی دباو¿ کے ذریعے بانی چیئرمین کی رہائی چاہتی ہے اور حکومت کو گھر بھیجنا چاہتی ہے تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ 2024ء کے انتخابات میں ان کا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے اس پر نہ عدالت انھیں مطمئن کر پا رہی ہے نہ الیکشن کمیشن ان کی بات سننے کے لیے تیار ہے نہ پارلیمنٹ اور حکومت انھیں مطمئن کر پا رہی ہے۔ ان کے نزدیک اسلام آباد میں احتجاج کے ذریعے ہی حکومت اور اداروں پر دباو¿ بڑھایا جا سکتا ہے اسی لیے تحریک انصاف ہٹ ہٹ کر اسلام آباد پر چڑھائی کرتی ہے۔ تحریک انصاف کو عوامی مقبولیت کا زعم ہے اور حکومت کو اپنی طاقت پر مان ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ وہ بزور طاقت تحریک انصاف کو دبانے میں کامیاب ہو جائے گی اور آہستہ آہستہ تحریک انصاف کے ورکروں کا جوش ماند پڑ جائے گا۔ حکومتیں اس پیٹرن پر پچھلے دو سال سے کام کر رہی ہیں۔ مقدمات اذیتیں مفروریاں جیلیں تاحال تو کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ کوئی فریق بھی ایک انچ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسی ہٹ دھرمی حادثات کا باعث بنتی ہے یہی وجہ ہے پاکستان جمود کا شکار ہے معاملات چل نہیں پا رہے۔ معاملات چلانے کے لیے دونوں فریقوں کو لچک کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ آج اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں 9 ممالک کے سربراہان مملکت یا اعلی سطحی وفود شریک ہو رہے ہیں جن میں دو بڑی طاقتوں کے سربراہان پاکستان پہنچ چکے ہیں جن میں روس اور چین شامل ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کانفرنس سے قبل تعاون کا ماحول پیدا کیا جاتا اپوزیشن کو اس کی تیاریوں میں شریک کیا جاتا سربراہان مملکت اور مہمانوں کے استقبال میں اپوزیشن رہنماو¿ں کو شامل کیا جاتا سیاست کچھ دنوں کے لیے فریز کر دی جاتی۔ لیکن ہم دنیا کو تماشا دکھائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے قبل ہم نے متنازعہ آئینی ترامیم کو زندگی موت کا مسئلہ بنالیا۔ حکومت کی کوشش تھی کہ سورج چڑھنے سے پہلے پہلے ترامیم کروا لی جائیں۔ اپوزیشن نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ اس کشمکش میں ماحول بہت زیادہ تلخ ہو گیا احتجاج میں شدت آ گئی اور حکومت نے اسے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو سبوتاڑ کرنے سے جوڑ دیا۔ تمام حکومتی ترجمان دن رات ایک ہی بات کر رہے ہیں کہ اپوزیشن اس اجلاس کو سبوتاڑ کرنا چاہتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن کے رہنما بانی پی ٹی آئی کو قید تنہائی میں پھینک دیا اس سے ہر قسم کی ملاقاتوں پر پابندی لگا دی اس کی بہنوں کو احتجاج پر گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا تحریک انصاف کے ہر ورکر کو اس پر تشویش ہے۔ اوپر سے طرح طرح کی افواہیں گردشِ کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف کے ورکرز کے اطمینان کے لیے کم ازکم ان کے ڈاکٹر کو تو بانی چیئرمین تک رسائی دی جائے۔ ایسی صورتحال میں تحریک انصاف بانی پی ٹی آئی سے ملاقات اور ڈاکٹر کے چیک اپ کے مطالبہ پر اپنا احتجاج واپس لینے کے لیے تیار ہے لیکن بدقسمتی کہ ہم مہمانوں کو گھر بلا کر آپس میں سیاست سیاست کھیل رہے ہیں تماشا لگا کر بڑھکیں مار رہے ہیں اور پوائنٹ سکورنگ کے چکروں میں پوری دنیا میں اپنا مذاق اڑوا رہے ہیں۔ حکومت نے ایک بار پھر کریک ڈاو¿ن شروع کر دیا ہے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی لیڈر شپ اور کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے اسلام آباد سے چودہ سو کلومیٹر دور کراچی میں بھی دفعہ 144 نافذ کرکے احتجاج کرنے والوں پر انسانیت سوز سلوک کیا گیا صحافیوں تک کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لاہور اور پنجاب کے بڑے شہروں میں بھی خوف کا عالم ہے اسلام آباد تو مکمل سیل کر دیا گیا ہے پنڈی میں بھی انسانی زندگی پابندیوں کے زیر اثر ہے۔ توقع ہے کہ جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے معاملہ کا کوئی نہ کوئی حل نکال لیا جائے گا۔ حکومت کو اندازہ ہے کہ 15 اکتوبر کو احتجاج کتنا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے اپوزیشن کو بھی احساس ہے کہ یہ احتجاج کاموقع نہیں ہے لیکن اس وقت حکومت کو اس حد تک نہیں جانا چاہیے تھا۔ جماعت اسلامی اورمولانا فضل الرحمن بھی فریقین کو سمجھا بجھا رہے ہیں امید واثق ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات یا ڈاکٹر کی رسائی پر احتجاج موخر کروا لیا جائے گا۔ اگر تھوڑی سی حکمت کا مظاہرہ کیا جاتا تو نوبت یہاں تک نہیں پہنچنی تھی۔ نہ جانے کیوں ہمیں ہر وقت ٹینشن میں رہنا اور قوم کو خوف میں مبتلا رکھنا اچھا لگتا ہے۔ ایسے ماحول سے کسی کی سیاست کو تو کوئی فائدہ مل سکتا ہے لیکن یہ کسی طور پر بھی ملک وقوم کے مفاد میں نہیں۔ خ±دارا سیاسی کھیل تماشوں سے باہر نکل آئیں اور ملک وقوم کے لیے بھی کچھ سوچ لیں۔ قوم کو امید بندھائیں، ڈپریشن کا شکار نہ کریں۔