اچھی خبریں آرہی جن کی شاید ہمیں عادت نہیں رہی تھی اور کچھ مایوسی بھی اتنی پھیلادی گئی تھی کہ کسی اچھے کی امید ہی ختم ہوگئی تھی اسی لیے اب یقین کرنے میں وقت لگتا ہے۔ یہی پاکستان تھا جس کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہورہی تھیں تاریخیں دی جارہی تھیں،سرلنکا بننے کی پیش گوئیاں کی جارہی تھیں باہر سے ہی نہیں اندر سے بھی۔ بیرونی دشمنوں نے پاکستان کو سفارتی تنہا کرنے کا کھل کر اعلان کررکھا تھا اور پھر ایسا ہوتا بھی دکھائی دینے لگا تھا یہ اور بات ہے کہ اس کی وجہ بیرونی دشمن سے زیادہ کچھ اندرونی پالیساں بن رہی تھیں، سعودی عرب اور چین جیسے دیرینہ دوست ممالک بھی دور ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن اب سب بدل رہا ہے۔ اکتوبر کے مہینے نے تو تمام خدشات اور کسی کی منفی خواہشات کو دفن کردیا ہے۔ اس مہینے کے پہلے دو ہفتے اسلام آباد میزبانی کرتا رہا دنیا بھر سے آئے اہم ترین مہمانوں کی ،عالمی سطح پر پاکستان کا نیا تشخص ابھر رہا ہے،پاکستان عالمی اور علاقائی سرگرمیوں اور اہمیت کا ایک بار پھر محور بن رہا ہے ۔
دو سے چار اکتوبر کو ملائیشیا کے وزیراعظم داتو سری انور ابراہیم نے پاکستان کا دورہ کیا جو دو طرفہ تعاون اور تجارت بڑھانے کی طرف اہم قدم ثابت ہوگا، پاکستان ملائیشیا کو سالانہ 200 ملین ڈالر مالیت کا حلال گوشت اورایک لاکھ میٹرک ٹن باسمتی چاول برآمد کرے گا جو باہمی تجارت اور ملکی معیشت کے استحکام کی جانب بڑی پیش رفت ہے ،ملائیشیا اور پاکستان کے درمیان کل تجارت ایک اعشاریہ چار بلین امریکی ڈالر رہی جس میں پام آئل، ملبوسات، ٹیکسٹائل، کیمیکل ، کیمیکل پر مبنی مصنوعات ، الیکٹرک اور الیکٹرانک مصنوعات شامل ہیں۔9 اکتوبر کواعلیٰ سطح کے سعودی وفدکی پاکستان آمد ہوئی ایک سو تیس سے زائد سرمایہ کار وفد کا حصہ تھے ،پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مفاہمت کی 27 یاد داشتوں پر دستخط کیے گئے جن میں توانائی، پیٹرولیم، ٹیکسٹائل، تعمیرات، ٹرانسپورٹ، سائبرسکیورٹی ، مصالحہ جات، سبزیوں کی برآمد، ہنرمند افرادی قوت اور سائبرسکیورٹی کے شعبوں میں تعاون کے معاہدے شامل ہیں۔ مفاہمتی یادداشتوں کی مالیت2.2 ارب ڈالر ہے۔دو طرفہ تجارت میں پہلے ہی تقریبا80 فیصد اضافہ ہوا ہے جو 2019ءمیں 3 ارب ڈالر سے بڑھ کر 5.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ،گیارہ سال بعد چین کے وزیراعظم لی شیانگ پاکستان پہنچے ہیں۔ پاک چین تعلقات اور مشکل وقت میں چین کا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوجانا مثالی بن چکا ہے۔ ماضی میں حکومتی پالیسیوں کے باعث دوطرفہ تعلقات میں کچھ خلش ضرور آئی لیکن اب دوستی میں آنے والی دراڑیں ختم ہورہی ہیں۔ 15 اور 16 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہورہا ہے۔ پاکستان پہلی باراس اہم ترین کانفرنس کی میزبانی کررہا ہے جس میں 12 رکن ممالک شریک ہیں۔ چین روس سمیت سات ممالک کے وزرائے اعظم پاکستان میں ہیں۔ 10 سال بعد بھارتی وزیر خارجہ پاکستان آئے ہیں۔ ان کے اس دورے کو دونوں ممالک کے تعلقات کے حوالے سے یہ ایک نہایت اہم پیش رفت سمجھی جارہی ہے۔ دو ہفتوں کے دوران درجن سے زائد اہم ممالک کے سربراہان اور اعلیٰ سطح کے وفود کی آمد اور پاکستان میں سرمایہ کے لیے اربوں ڈالرز کے معاہدے اچھی خبریں اور بہتر مستقبل کی نوید تو ہیں ساتھ ہی ان کے لیے واضح پیغام ہے جو ملک کو سفارتی تنہائی کا شکار کرنے کی دھمکیاں اور اعلانات کررہے تھے۔
دوسرا اہم معاملہ معاشی صورتحال کا ہے ابھی عوام وہ وقت نہیں بھولے جب ملک کی دیوالیہ ہونے کی باتیں ہورہی تھیں افراط زر یعنی مہنگائی بڑھنے کی شرح چالیس فیصد تک پہنچ چکی تھی ڈالر چھلانگیں مارتا جارہا تھا آج وہی افراط زر کم ہوکر سنگل ڈجٹ میں آچکی ہے اور مزید کم ہونے کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں۔ عالمی ادارے جو کبھی پاکستان کی معاشی صورتحال پر تشویش ظاہر کررہے تھے آج بہتری کی نویدسنارہے ہیں۔ پٹرول کی قیمت جو ایک وقت میں تین سو روپے سے بھی اوپر جاچکی تھی اب ڈھائی سو سے کم ہوچکی ہے۔ روپے کی قیمت مستحکم ہورہی ہے اور سٹاک مارکیٹ ملکی تاریخ کی ریکارڈ بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ یہ معاشی اشاریے سب کے سامنے ہیں عالمی ادارے بھی معیشت کے حوالے سے مثبت پیش گوئیاں کررہے ہیں۔
بہتر معاشی مستقبل کا ایک اظہار یہ بھی ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری میں دلچسپی دکھا رہے ہیں اور حکومت کی جانب سے بھی بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل سرخ فیتے کی رکاوٹوں کو سرخ قالین میں بدلنے کی یقین دہانیاں کی جارہی ہیں۔ یہ سب جاننا اس لیے ضروری ہے کہ ہم مایوسی کے ماحول سے نکلیں اچھی مستقبل کی امید رکھیں اور یہ جانیں کہ ملک میں شدید سیاسی تقسیم کے ماحول میں ہمیں حالات جتنے برے بنا کر دکھائے جاتے ہیں۔ حالات ایسے بھی نہیں عوام نے سخت معاشی حالات کا سامنا کیا، مشکلات اٹھائیں، اب ثمرات سامنے دکھ رہے ہیں تو اس کا اظہار کیوں نہ ہو؟ ملکی حالات سے متعلق ناامیدی کبھی نہیں تھی لیکن جتنا تیزی کے ساتھ یہ سب ہورہا ہے، اس کی امید بھی نہ تھی۔ پاکستان میں معاشی ترقی کے حوالے سے نواز شریف ادوار کو یاد کیا جاتا ہے اس بار حکومت تو نواز شریف ہی کی جماعت کی ہے لیکن ڈرائیونگ سیٹ پر چھوٹے میاں صاحب ہیں تو کہنا تو بنتا ہے چھوٹے میاں، سبحان اللہ!