شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی سربراہانِ حکومت کونسل کا دو روزہ اجلاس آج (منگل) سے اسلام آباد میں شروع ہورہا ہے۔ اجلاس کے سلسلے میں چین، بھارت، روس، ایران اور کرغزستان سمیت مختلف ممالک کے وفود پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ چینی وزیراعظم لی چیانگ جو اس اجلاس کے سلسلے میں پاکستان آئے ہیں وہ 17 اکتوبرتک پاکستان میں قیام کریں گے جبکہ ایرانی نائب صدر (اول) ڈاکٹر رضا عارف کی آمد آج متوقع ہے۔ اجلاس کے لیے بھارت کا 4، روس کا 76، چین کا 15، کرغیزستان کا 4 اور ایران کا 2 رکنی وفد وفاقی دارالحکومت پہنچ چکا ہے۔ اس کے علاوہ ایس سی او کے 7نمائندے بھی پاکستان پہنچے ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق سربراہی اجلاس میں چین، روس، بیلاروس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے وزرائے اعظم شرکت کریں گے جبکہ ایران کے اول نائب صدر ڈاکٹر محمد رضا عارف اور بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر بھی اجلاس میں شریک ہوں گے۔ علاوہ ازیں، مبصر ملک منگولیا کے وزیراعظم اور ترکمانستان کے چیئرمین اور وزراءبھی کانفرنس کا حصہ ہوں گے۔
یہ ایس ای او اجلاس پاکستان کے لیے اس لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ ہمیں ربع صدی سے زائد عرصے بعد اس قسم کے کسی اجلاس کی میزبانی کا موقع مل رہا ہے۔ بیرون ممالک سے آنے والے سربراہان اور وفود سے اجلاس کے علاوہ بھی پاکستانی حکام کی ملاقاتیں ہوں گی جو ہمارے لیے کئی حوالوں سے سود مند ثابت ہوں گی۔ چینی وزیراعظم کے ساتھ وزارت خارجہ اور تجارت کے حکام پاکستان آرہے ہیں اور امید ظاہر کی جارہی ہے کہ فریقین علاقائی اور عالمی پیش رفتوں پر بھی بات کریں گے۔ دورہ پاکستان کے دوران چینی وزیراعظم صدر آصف علی زرداری، پارلیمانی رہنماو¿ں اور اعلیٰ عسکری قیادت سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ اسی طرح، ایرانی اول نائب صدر بھی پاکستانی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے جن کے دوران پاک ایران تعلقات اور خطے بالخصوص غزہ و لبنان کی صورتحال پر بات چیت متوقع ہے۔
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ قومی اہمیت کے ایونٹ پر احتجاج مثبت پیغام نہیں، اگر کسی نے احتجاج کرنا ہے تو ایس سی او اجلاس کے بعد کرے۔ اہم مواقع پر احتجاج ایک سیاسی جماعت کا وتیرہ ہے۔ تحریک انصاف ملکی مفاد کے لیے 15 اکتوبر کی کال کو موخر کرے۔ پاکستان میں اس طرح کا بڑا ایونٹ 27سال بعد ہورہا ہے جس میں غیرملکی وفود کے تقریباً ایک ہزارافراد آئیں گے۔ پاکستان علاقائی تعاون اور روابط کے فروغ کے لیے پرعزم ہے۔ آج وہ لوگ کدھر ہیں جو کہتے تھے پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ چین کے وزیراعظم پاکستان کا دوطرفہ دورہ بھی کریں گے جبکہ بھارتی وزیرخارجہ کی طرف سے دوطرفہ ملاقات کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔ چینی وزیراعظم بھی اجلاس سے ایک دن پہلے آئے ہیں۔ پائیدار ترقی کے لیے خطے میں امن واستحکام ضروری ہے، پاکستان نے تمام عالمی فورمز پر فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کو اجاگر کیا ہے، فلسطینیوں کے لیے امداد بھیجنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
علاوہ ازیں، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاءاللہ تارڑ نے کہا ہے کہ ایس سی او سربراہی اجلاس پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا، اس سے معاشی اور علاقائی روابط کو فروغ ملے گا۔ اجلاس کے بارے میں غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عطاءاللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ اجلاس علاقائی تعاون کے حوالے سے اہم فورم ہے۔ سربراہی اجلاس کے علاوہ سربراہان مملکت کی دوطرفہ ملاقاتیں بھی ہوں گی۔
چین اور روس نے 2001ءمیں ایس سی او کو یورپ اور ایشیا کے ممالک کے مابین سیاسی، اقتصادی، سکیورٹی اور دفاعی تعاون کے فروغ کے لیے قائم کیا تھا۔ علاقے اور آبادی کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو یہ دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ تنظیم بہت اہمیت کی حامل ہے۔ سربراہانِ حکومت کونسل اس تنظیم کے ڈھانچے میں دوسری سب سے اہم کونسل ہے، اس سے اوپر سربراہانِ ریاست کونسل ہے۔ پاکستان میں ایس سی او کی سربراہانِ حکومت کونسل کے اجلاس کا انعقاد یہ ظاہر کرتا ہے کہ کچھ ممالک کی سر توڑ کوششوں کے باوجود پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار نہیں ہوا اور کئی دوست ممالک موجودہ مشکل حالات میں اس کا ساتھ دے کر اسے مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے کردار ادا کررہے ہیں۔ اس اجلاس کے ذریعے پاکستان کو مختلف ممالک کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کا موقع ملے گا جس سے اقتصادی، دفاعی اور تزویراتی معاملات میں بہتری آنے کا امکان ہے۔
ایک لمبے عرصے کے بعد کسی بڑے اور نہایت اہم اجلاس کی میز بانی کا اعزاز پوری قوم کے لیے باعثِ فخر ہے۔ ایس سی او سربراہی اجلاس میں عالمی اور بین الاقوامی اقتصادی صورتحال سمیت دہشت گردی اور کشمیر و فلسطین جیسے اہم مسائل زیر غور آئیں گے۔ اجلاس کے علاوہ پاکستانی حکام کی مختلف ممالک کے اپنے ہم منصبوں سے جو ملاقاتیں ہوں گی ان کی مدد سے ان مسائل کے حل کے لیے بھی مثبت پیش رفت ہوگی جو پاکستان کی ترقی کے لیے بڑی رکاوٹیں بنے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر یہ تاثر ہر گز نہیں جانا چاہیے کہ پاکستان سیاسی عدم استحکام، انتشار اور بدامنی کا شکار ہے۔ اس حوالے سے بالخصوص پی ٹی آئی کو اپنا احتجاجی پروگرام موخر کرنا چاہیے تا کہ پر امن ماحول میں اس اجلاس کا انعقاد ہوسکے۔ باہمی سیاسی اختلافات پر بات اپنے گھر کے اندر ہونی چاہیے نہ کہ بیرون ممالک سے ایک اہم اجلاس میں شرکت کے لیے تشریف لائے ہوئے مہمانوں کے سامنے۔ مزید یہ کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اجلاس کے پ±ر امن اور خوشگوار انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے وہ تمام اقدامات کرے جو ایسے عناصر کے مذموم عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے ناگزیر ہیں جو پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔