مہمان صحافیوں کو ہماری زندگی سے روشناس کرانے کی منصوبہ بندی؟

صحافت کے شعبے میں دس سال گزاردئے تو 1985ء کی آخری سہ ماہی سے اس قابل شمار ہونا شروع ہوگیا کہ عالمی کانفرنسوں کی رپورٹنگ کرسکوں۔ اس ضمن میں آغاز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے ہوا تھا۔ اس میں شرکت کے لئے وزیر اعظم محمد خان جونیجو مرحوم کے ہمراہ جانے والے وفد میں شامل تھا۔ اقوام متحدہ کے قواعدوضوابط اور روایات پر نہایت لگن سے گرفت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے کئی ذیلی اداروں نے مختلف عنوانات پر دنیا کے دیگر کئی ممالک میں منعقد ہوئی ورکشاپوں یا عالمی کانفرنسوں میں بھی مدعو کرنا شروع کردیا۔ مذکورہ تناظر میں فلسطین کے موضوع پر ہوئی ایک کانفرنس بھی تھی جو ملائیشیا میں پانچ روز کے لئے منعقد ہوئی تھی۔ اس میں شرکت کے طفیل اسرائیل اور فلسطین کے مابین جاری قضیے کی کلیدی وجوہات جاننے کی وجہ سے ’’تازہ ترین‘‘ حالات بآسانی سمجھ لیتا ہوں۔

طویل وقفے کے بعد ان دنوں پاکستان میں شنگھائی تعاون کونسل کا اجلاس ہورہا ہے۔ اس سے قبل عالمی سطح کے رہ نما باہمی تعلقات فروغ دینے کے لئے پاکستان تشریف لاتے رہے ہیں۔ کسی عالمی تنظیم کا اجلاس ہوئے مگر کئی برس گزچکے ہیں۔ ہمارے ہاں عالمی یا علاقائی تعاون کی تنظیموں کے اجلاس نہ ہونے کی بنیادی وجہ دہشت گردی کی وہ طویل جنگ رہی جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر مسلط کی تھی۔ دو دہائیوں تک جاری رہی اس جنگ میں پاکستان نے امریکہ اور نیٹو افواج کے لئے ’’کلیدی اتحادی‘‘ کا کردار ادا کیا تھا۔ مذکورہ کردار نے ’’جہادیوں‘‘ کو ناراض کردیا۔ وہ پاکستان کے شہروں میں دہشت گردی کی وارداتوں کا ارتکاب کرتے ہوئے ہماری ریاست کو ’’سبق سکھانے‘‘ کے بجائے عام آدمیوں ہی کو اذیت پہنچاتے رہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا نام ہی یہ حقیقت بیان کردیتا ہے کہ اس کی بنیاد ہمارے ہر موسم کے یارچین نے رکھی تھی۔ بنیادی مقصد اس تنظیم کا روس اور چین کو سنٹرل ایشیاء کے راستوں سے جنوبی ایشیاء کے ساتھ جوڑنا ہے۔ وسیع تر تناظر میں یہ تنظیم اس تاریخی دور کا احیاء چاہتی ہے جب مشہور زمانہ ’’سلک روٹ‘‘ کے ذریعے قدیم یورپ کے بے تحاشہ ممالک ایران ،افغانستان اور پاکستان کے زمینی راستوں سے تاجکستان، ازبکستان اور قزاقستان وغیرہ سے ہوتے ہوئے روس اور چین تک اپنی مصنوعات پہنچاتے اور بدلے میں ان علاقوں کی ’’سوغاتوں‘‘ سے اپنے ہاں کے بازاروں میں رونق لگاتے۔
بھاری بھر کم بحری جہازوں کے متعارف ہوجانے کے بعد سے مگر یہ روایت دم توڑنا شروع ہوگئی۔ جدید ترین ایجادات سے کئی صنعتوں پر اجارہ داری حاصل کرلینے کے سبب برطانیہ جیسے ممالک نے بالآخر ہمارے خطے تک رسائی فقط اپنے لئے مختص کرلی۔ اس کے مقابلے میں روس بھی بتدریج وسطی ایشیاء  کے تمام ممالک پر قابض ہوگیا۔ افغانستان کو البتہ دونوں سامراجی قوتیں ’’بفرسٹیٹ‘‘ تسلیم کرنے کو آمادہ ہوگئیں۔ ان کے مابین ایک نوعیت کی ’’حد بندی‘‘ ہوگئی۔ ہمارا خطہ مگر سمرقند وبخارا وغیرہ سے کاملاََ کٹ گیا۔ کاشغر سے بھی جدا ہوگئے۔ تاریخ کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں سنجیدگی سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ ایس سی او کا کامیاب ومتحرک تنظیم میں بدل جانا چین اور روس سے کہیں زیادہ پاکستان اور ایران کو آئندہ برسوں میں ایشیاء کے تجارتی اور ثقافتی اعتبار سے اہم ترین ممالک میں تبدیل کرسکتا ہے۔
مذکورہ بالا خیالات کے دیانتدارانہ اظہار کے بعد مجھے یہ بیان کرنے کا حق بھی ہے کہ اسلام آباد میں مذکورہ اجلاس کو قابل قدر انداز میں منعقد کرنے کی کوشش نہیں ہورہی۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارے ہاں گزشتہ کئی مہینوں سے دہشت گردی دوبارہ سراٹھارہی ہے۔ بلوچستان کے چند دہشت گرد علیحدگی پسند چینی تنصیبات اور شخصیات کو فوجی اعتبار سے میسر ہوئی معلومات کی بدولت نشانہ بنارہے ہیں۔ انہیں میسر شدہ معلومات یہ پیغام اجاگر کرنے کو کافی ہیں کہ انتہا پسند گروہوں کو پاکستان کے بدخواہ ممالک اور قوتیں جنگی نوعیت کی انٹیلی جنس فراہم کررہی ہیں۔
یہ تسلیم کرنے کے باوجود مصر رہوں گا کہ اسلام آباد کے ’’ریڈ زون‘‘ کہلاتے حصہ کو ہماری سیکیورٹی کو یقینی بنانے والے ادارے بھرپور انداز میں تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔ ریڈ زون کے علاوہ اسلام آباد کے دیگر کئی علاقوں کو کرفیو کی حالت میں محصور ہوا دکھانے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی۔ عالمی تنظیموں کے جو اجلاس ہوتے ہیں اس میں شامل سرکاری وفد ہمارے ’’امیج‘‘ کو اپنے ممالک میں بہتر بنانے کے ذمہ دار نہیں ہوتے۔ وہ پاکستان آکر سرکاری فرائض سرانجام دینے ہی میں مصروف رہیں گے۔ ہمارے ’’امیج‘‘ کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار وہ صحافی ادا کرسکتے ہیں جو ایس سی او سے تعلق رکھنے والے ملکوں سے ہمارے ہاں آئے ہیں۔ میں نے تھوڑی تحقیق کے بعد پتہ چلایا ہے کہ ہمارے ہاں آئے مہمان صحافیوں کو ہماری زندگی سے روشناس کروانے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں ہوئی ہے۔
ایران پاکستان سے کہیں زیادہ دہشت گردی کی زد میں رہا ہے۔ 1997ء میں وہاں او آئی سی کی تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئے گیا تھا۔ جس عمارت میں مذکورہ کانفرنس کا انعقاد ہونا تھا وہ تہران کے مرکز سے بہت دور خصوصی طورپر تعمیر کروایا گیا تھا۔ ہمیں وہاں تک سرکاری بسوں کے ذریعے گروہوں میں پہنچایا جاتا۔ جن بسوں میں ہم بیٹھے ہوتے وہ تین مقامات پر بدل دی جاتیں۔ ان میں سوار ہونے سے قبل ہماری سخت جامہ تلاشی ہوتی۔ کامل اطمینان حاصل کرلینے کے بعد مگر جب ہم کنونشن سنٹر پہنچ جاتے تو وہاں کوئی سرکاری اہل کار ہم پر نگاہ نہ رکھتا۔ ہم اس عمارت میں آزادی سے گھومتے رہتے۔ مجھے خوش گوار حیرت ہوئی کہ مذکورہ کانفرنس میں شرکت کے دوران میں اس کے لئے مختص عمارت میں اچانک گزرتے ہوئے یاسر عرفات اور شام کے صدر اسد کے ساتھ بھی بے تکلفانہ انداز میں اپنا تعارف کروانے کے بعد کئی منٹوں تک گفتگو کرتا رہا۔ کوئی بھی سرکاری اہلکار روکنے نہیں آیا۔
اسلام آباد میں لیکن عجب فضا طاری کردی گئی ہے۔ سکیورٹی کے حوالے سے معزز مہمانوں کی حفاظت کویقینی بنانے کے بعد ہمیں باقی شہر میں زندگی کو رواں رکھنا چاہیے تھا۔ اس کی بدولت غیر ملکی مہمانوں کے ہمراہ آئے صحافی خبریں وغیرہ فائل کرنے کے بعد ہمارے بازاروں اور چائے خانوں میں گھومتے تو لوگوں سے مل کر انہیں یقیناََ اچھا محسوس ہوتا۔ اپنی تمام تر برائیوں کے باوجود ہم مہمان نواز قوم ہیں۔ پردیسیوں کا جی لبھانا ہماری طبیعت میں شامل ہے۔ اسلام آباد کے عام باسیوں کو غیر ملکی مہمانوں سے ہیلو ہائے کے مواقع فراہم کرنا چا ہیے تھے۔

ای پیپر دی نیشن