پھانسی اور وصیّت

پہلے پشتون کارڈ نے باقی ملک، بالخصوص پنجاب میں پی ٹی آئی کی ہوا اکھاڑی، اب شنگھائی کانفرنس کو روکنے کی کوشش نے بچی کھچی مقبولیت پر ہاتھ ڈال دیا۔ پی ٹی آئی نے  اپنے ہاتھوں سے جس طرح اپنا گلشن اْجاڑا ہے، اس کی نظیر یاد کرنے پر بھی یاد نہیں آ رہی۔ خیر، گلشن تو مت کہیئے، خارزار ہی کہیئے۔ 

ماضی میں جب بات ہوتی تھی کہ پی ٹی آئی نے 2014ء میں چینی صدر کو پاکستان نہیں آنے دیا، سی پیک کو روکا تو بہت سے لوگ اسے ’’محض‘‘ الزام قرار دے کر مسترد کر دیتے تھے لیکن اب یہ لوگ بھی خود سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جب بھی پاکستان میں معاشی بحالی کیلئے کوئی بڑا قدم اٹھتا ہے، پی ٹی آئی حرکت میں آ جاتی ہے۔ اس سوال کا جواب اب پی ٹی آئی کے گلے پڑ گیا اور ایسا پڑا جیسے پیر تسمہ پا کے پائوں مسافر کے گلے پڑے تھے۔ 
پی ٹی آئی کی ’’حرکتی‘‘ قوت ماضی قریب میں خاصی زیادہ تھی، لیکن اب یہی حرکتی قوت اس کے ضعف میں بدلتی جا رہی ہے۔  یعنی جو تبدیلی آنی تھی وہ آ نہیں رہی، آ چکی ہے۔ برسبیل تذکرہ یہ کالم چھپنے تک شاید کوئی ’’فیس سیونگ‘‘ رونما ہو جائے اور پی ٹی آئی شنگھائی کانفرنس کے خلاف اپنا آج کا پروگرام واپس لے چکی ہو۔ 
بہرحال، اب اس سے نیٹ رزلٹ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ 
توجیہہ کرنے والے کہہ سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ہاتھوں پشتون کارڈ کا استعمال کرانا دراصل طاغوتی طاقتوں کی سازش تھی اور شنگھائی کانفرنس کے گیم چینجر کے موقع پر اسلام آباد کو لاک کرنے کی تجویز بھی انہی فسطائی طاغوتی طاقتوں نے پی ٹی آئی کو سجھائی، ایک سازش کے تحت…، لگتا ہے، شنگھائی والی گیم چینجر کانفرنس نے پی ٹی آئی کی سیاست کی گیم بھی ’’بجا‘‘ ڈالی۔ 
______
کپتان جیل میں ہے اور /3 اکتوبر سے ایسی حالت زمانی میں کہ جہاں سے خود اسے بھی کوئی اپنی خبر نہیں آتی۔ ایسے میں کپتان کے ذاتی کالم نویس نے اپنے ولاگ میں ایک خبر دے کر ہلچل سی مچا دی۔ مطلب ہلچل مچانے کی کوشش کی، ہلچل مچی نہیں، بس گنڈاپور ہو کر  رہ گئی۔ 
خبر یہ دی کہ کپتان نے وصیّت کی ہے کہ پھانسی دیتے وقت میرے چہرے پر کالا کپڑا نہ ڈالا جائے (ہرا یا لال ڈالا جائے؟) اور صرف مسلمان جلّاد مجھے پھانسی دے۔ کپتان پر پھانسی والا کوئی مقدمہ نہیں ہے۔ زیادہ خطرناک مقدمے 9 مئی کے اور جنرل فیض سے سازباز والے مقدمے ہیں اور ان میں سخت سزائے قید کا امکان یا اندیشہ ہے۔ پھانسی کہاں سے آ گئی۔ 
اور جہاں سے کوئی بھی خبر نہیں آتی، وہاں سے کپتان کا ذاتی کالم نویس وصیّت کیسے نکال لایا؟۔ سوال خاصا مشکل ہے، جواب خاصا آسان۔ یہ ’’کشف ‘‘ہوا ہے اور سب کو معلوم ہے کہ پی ٹی آئی اصحاب کشف سے بھری ہوئی ہے۔ خود کپتان اتنا بڑا صاحب کشف ہے کہ اسے عالم کشف کا دب اکبر کہا جا سکتا ہے۔ پہلا کشف یاد ہو گا جس میں فرمایا تھا کہ امپائر کی انگلی پیر یا منگل تک کھڑی ہو جائے گی۔ 
کپتان کا ذاتی کالم نویس ہر دوسرے ہفتے ایک آدھ کشف جاری فرماتا ہے۔ ایک مشہور کشف اس نے غالباً 2019ء میں کیا تھا جب نواز شریف کو جیل سے رہا کر کے، علاج کیلئے، لندن بھیجا گیا تھا۔ کپتان کے ذاتی کالم نویس نے اس وقت بتایا تھا کہ نواز شریف ایسے ہی لندن نہیں چلا گیا، /29 ارب ڈالر دئیے ہیں تب جانے کی اجازت ملی ہے۔ کشف میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اگلے چند روز میں سٹیٹ بنک سے خبر آئے گی کہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر میں /29 ارب ڈالر کا اضافہ ہو گیا ہے، جس کے بعد میرے ’’کشف‘‘ کی تصدیق ہو جائے گی۔ 
یہ /29 ارب ڈالر بہت قیمتی تبرّک تھے اس لئے ریاست نے چھپا کر رکھ دئیے اور خود آئی ایم ایف کے ایک ایک ارب ڈالر قرضے (سالانہ) پر گزارا کرنے لگی۔ 
______
میڈیا کے افق پر سیاسی غل غپاڑے کا غبار ہر وقت چھایا رہتا ہے ، چنانچہ  ایسی خبریں میڈیا پر ہوتی تو ہیں لیکن ان کی حالت وہی ہوتی ہے جو آندھی میں اڑتے شاپروں اور پتوں کی کہ کوئی نظر نہیں ڈالتا، غیر ارادی چھچھلنی ہوئی نظر ازخود پڑ جائے تو اور بات ہے۔ -----------------------------------------
گکھّڑ (گوجرانوالہ) میں ایک بارہ سالہ بچی نے باپ سے پیسے مانگے تو باپ نے مشتعل ہو کر اسے قتل کر دیا۔ پانچویں میں پڑھتی بچی نے قتل ہوتے وقت کیا سوچا ہو گا، کون جانے۔ گھر میں اس پر کیا گزرا کرتی تھی، یہ بھی کون جانے۔ غربت ایک وجہ ہے تو دوسری وجہ مسلمان معاشروں کی یہ متفق علیہ سوچ کہ بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں، انہیں غیرت کے نام پر مار دیا جائے یا کسی وقتی اشتعال کا بہانہ بنا کر ٹھکانے لگا دیا جائے، یہی راہ نجات ہے۔ 
پاکستان میں غربت نے چوتھائی صدی قبل بہت زور پکڑا۔ تب سے اب تک صرف بچیوں ہی نہیں، بچوں کا قتل بھی بڑھا ہے۔ خودکشتیاں، ’’کلچر‘‘ بن گئی ہیں۔ لوگ ’’سائیکو کلر‘‘ بن گئے ہیں۔ کئی برسوں کی بات کرتا ہوں نہ کئی مہینوں کی، محض پچھلے دو تین ہفتوں کی جن کے دوران آنے والی ایسی خبروں کی تعداد ڈیڑھ درجن سے زیادہ ہے اور یہ وہ خبریں ہیں جو لاہور کے اخبارات میں چھپی ہیں۔ ظاہر ہے، ملک کے دوسرے شہروں کی ہر خبر لاہور ایڈیشن میں بھی ہو، یہ ضروری نہیں۔ ان ڈیڑھ درجن خبروں کا خلاصہ لکھوں تو خاصی جگہ درکار ہو گی، تین چار واقعات ملاحظہ فرمائیں، جو ہر ٹا?ن لاہور میں باپ نے اپنے تین ماہ کے بچے کو زمین پر لٹایا اور اس کی چھاتی پر کھڑا ہو کر مار دیا۔ اس ’’سائیکو‘‘ کا نام مظہر بتایا جاتا ہے۔ اوکاڑہ میں ایک بچی 9 ویں جماعت کے امتحان میں فیل ہو گئی۔ جس پر اس کے بھائی نے اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ غیرت کے نام پر قتل کا موقع نہیں ملا ہو گا، جو موقع ملا، ملزم نے اسی کو غنیمت جانا۔ ٹھادو شاہ میں کسی کے گھر بچی پیدا ہوئی، وہ بچی کیوں ہے، بچہ کیوں نہیں ہے، بس اسی جرم میں باپ نے اسے 15 دن بعد ہی زندہ دفن کر دیا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقے پیر محل میں غلام شبیر نامی شخص نے بیوی سے مار پیٹ کی، اس نے اپنی دونوں بچیوں 13 سالہ انعم اور 8 سالہ مصباح کو زہر دے کر ہلاک کر دیا اور یوں شوہر کے ظلم کا ’’انتقام‘‘ لے لیا۔ فیصل آباد ملک شاہد نامی ’’سیٹھ‘‘ نے اپنے 12 سالہ ملازم عثمان کو کسی غلطی پر مشتعل ہو کر پھانسی دے دی۔ ظاہر ہے، ملازموں کو قتل کرنا پاکستان کے غیر تحریری آئین میں مالکان کا بنیادی اور آئینی حق ہے اور یہ حق اتنا غیر متنازعہ ہے کہ ہر ماہ بہت سے بچے اور بچیاں قتل کی جاتی ہیں، آج تک کسی مالک یا مالکن کو سزا نہیں ملی، پولیس البتہ کیس درج کر کے تحریری آئین کی ذمہ داری سے ضرور سبک دوش ہو جاتی ہے لیکن اصل آئین عدلیہ کے پاس ہے، وہ اپنا بنیادی حق استعمال کرنے والے ’’مالکان‘‘ پر درج غیر ضروری مقدمے خارج کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتی۔ 
یہ قتل اسی طرح ہوتے رہیں گے، اس لئے کہ طاقت کے تمام سرچشمے اسی نظام کے سرپرست ہیں جس میں افتادگانِ خاک کیلئے کوئی گنجائش نہیں۔ انسانی حقوق کی موم بتی برانڈ تنظیمیں ہوں یا اسلامی اور دینی تنظیمیں، فلسفیانہ مباحث کے فورم ہوں یا بحرانوں پر نظر رکھنے والے تھنک ٹینک، اخبارات ہوں یا ٹی وی چینل، اس بارے میں کوئی آواز اٹھانے والا کہیں نظر نہیں آتا۔ 
یہی تو ہمارے ’’نظام‘‘ کا اصل حسن ہے۔

ای پیپر دی نیشن

اقبال کا تصوّر قرآن 

بازگشت … طارق محمود مرزاtariqmmirza@hotmail.com ہر کوئی مست مئے ذوق تن آسانی ہے تم مسلمان ہو یہ اندازِ مسلمانی ہےحیدری فقر ہے نے ...