کردار کی تعمیر میں والدین خاص طور پر ماں کا کردار اور تربیت خصوصی اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہے۔ پیغمبروں، نبیوں، اہلبیت، صحابہ کرام، اولیاء کرام اور سرکردہ تاریخی و علمی شخصیات سب کو عزت و تکریم شہرت و مرتبہ اپنی قابل فخر مائوں کی اعلیٰ تربیت اور ان کے قدموں کے طفیل حاصل ہوا۔ حضرت غوث پاک کے والد ماجد حضرت سید ابو صالح موسیٰ جنگی آپ کے بچپن میں ہی وصال فرما گئے تھے اور آپ کے نانا جان حضرت سید عبداللہ صومعی نے یتیم نواسے کو اپنے سایہ عافیت میں لے کر اس کی پرورش کا فریضہ انجام دینا شروع کیا۔ آپ کی والدہ محترمہ سیدہ اُم الخیر امتہ الجبار کی خواہش تھی کہ آپ کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کریں۔ چنانچہ آپ کو جبلان کے مکتب سے داخل کرا دیا گیا جہاں آپ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے لگے لیکن مشیت ایزدی کو ابھی اس قابل فخر ماں اور یتیم بچے کا بڑا امتحان مقصود تھا اسی اثنا میں حضرت غوث پاک کے یہ مشفق و مہرباں نانا جان بھی اللہ کی رحمت میں چلے گئے اور یوں شفقت پدری کے بعد پیارے نانا جان کی بد
برگد جیسی گھنی چھائوں سے بھی محروم ہوگئے لیکن آپ کی والدہ محترمہ نے حوصلہ نہیں ہارا اور اپنی تمام تر توجہ حضرت غوث پاک کی اعلیٰ تعلیم پر مرکوز رکھی۔ یہ والدہ محترمہ کی تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ کے دل میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق جاگزیں ہوا، یہ اعلیٰ تعلیم جیلان جیسے قصبہ میں اب ممکن نہیں تھی۔ بغداد ان دنوں علم و ادب کا سب سے بڑا مرکز تھا اور وہاں جانے کے لیے سفر کی مشکلات تعلیم کا حصول اور اخراجات یہ سب مراحل درپیش تھے۔
حضرت غوث پاک نے والدہ محترمہ سے بغداد جانے کی خواہش کا اظہار کیا، اس وقت آپ کی عمر سترہ سال تھی، جیلان سے بغداد کا سفر محفوظ نہ تھا، ان دنوں قافلوں کو ڈاکو رستے میں لوٹ لیا کرتے تھے، یہ رستے میں صحرائوں، ریگراروں، نخلستانوں میں گھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور بے خبری میں قافلوں پر ٹوٹ پڑتے تھے۔
جب آپ والدہ محترمہ سے اجازت لیکر بغداد رخصت ہونے لگے تو انہوں نے آپ سے فرمایا کہ آپ کے والد محترم نے ترکہ میں80 دینار چھوڑے تھے جن میں نصف یعنی چالیس دینار میں نے آپ کے بھائی کے لیے رکھ چھوڑے ہیں جبکہ چالیس دینار میں نے تمہاری قمیض کے اندر سوئی سے سی دیئے ہیں تاکہ گرنے یا رستہ میں نقصان کا اندیشہ نہ رہے۔ نوعمر اور یتیم سیدنا عبدالقادر جیلانی والدہ محترمہ اور بھائی سے جدائی پر بڑے دل گرفتہ اور اداس تھے، والدہ محترمہ کے دل و جگر پر ان کی جدائی شاق گزر رہی تھی لیکن انہوں نے بہت حوصلے سے اپنے یتیم لخت جگر کو بغداد روانہ کرتے ہوئے فرمایا کہ عبدالقادر تمہیں اللہ کے سپرد کیا اور نصیحت فرمائی کہ کبھی جھوٹ نہ بولنا۔
سیدنا حضرت عبدالقادر بغداد جانے کے لیے قافلے کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ جیلان سے فاصلے پر راستے میں ساٹھ ڈاکوئوں نے قافلے پر حملہ کر دیا اور تمام لوگوں سے مال و اسباب لوٹ لیا، ایک ڈاکو نوعمر عبدالقادر کے پاس آتا ہے اور دریافت کرتا ہے کہ اے لڑکے بتا تیرے پاس کیا کچھ ہے؟ نوعمر عبدالقادر ڈاکو کی بات سنتے ہیں اور بغیر خوفزدہ ہوئے کہتے ہیں کہ میرے پاس چالیس دینار ہیں، چالیس دینار بڑی رقم تھی ڈاکو نے اسے مذاق سمجھا اور ہنستے ہوئے آگے بڑھ گیا بعدازاں اس کا دوسرا ساتھی آپ کے پاس آتا ہے اور یہی سوال کرتا ہے جسے نو عمر عبدالقادر وہی جواب دیتے ہیں جسے سن کر وہ بھی اس کا مذاق اڑاتا ہوا چل دیا اس کے بعد دونوں ڈاکو سردار کے پاس جاتے ہیں اور قافلے میں موجود نو عمر لڑکے کی چالیس دینار کی بات بتاتے ہیں جسے سن کر وہ چونکتا ہے کہ اس لڑکے کو جلد میرے پاس لائو، ڈاکو آپ کو لیکر سردار کے پاس آتے ہیں۔
ڈاکوئوں کا سردار آپ کے سر سے پائوں تک دیکھتا ہے اور پوچھتا ہے کہ لڑکے کیا تمہارے پاس چالیس دینار ہیں؟ آپ فرماتے ہیں کہ ہاں ہیں۔ سردار پوچھتا ہے کہ تلاشی لینے پر تو برآمد نہیں ہوئے وہ دینار کہاں ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ میری قمیض کے اندر سلے ہوئے ہیں، یہ سن کر ڈاکو جلدی میں آپ کی قمیض ادھیڑ ڈالتا ہے اور اندر والدہ محترمہ کے ہاتھ کے سلے ہوئے چالیس دینار برآمد ہوتے ہیں۔ وہ چشم حیرت سے آپ کو دیکھتا ہے اور پوچھتا ہے کہ تم بڑی آسانی سے یہ دینار بچا سکتے تھے آخر تمہیں یہ سچ بتا کر کیا ملا، نوعمر عبدالقادر جن کے سر پروقار پر حضرت غوث اعظم کا تاج سجنا تھا نے بڑے تحمل اور اعتماد سے جواب دیا کہ میری ماں کا مجھ کو یہی حکم تھا۔
اب وہ ڈاکو جس کی ساری عمر لوگوں کو لوٹتے اور ڈاکے ڈالتے گزری تھی کے دل پر نوعمر عبدالقادر جیلانی کے الفاظ کا سخت اثر ہوتا ہے۔ اس کی حالت یکسر بدل جاتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ ایک یہ بچہ ہے جو اپنی ماں کے حکم کا دل جان کے سخت خطرہ کے دوران بھی پاسداری کرتا ہے اور دوسری جانب میں ہوں جو اپنے مالک کا اتنا نافرمان ہوں جو مخلوق خدا کو آزار اور تکلیف پہنچاتا ہے، وہ زار و قطار روتا ہے اور مالک سے اپنے گناہوں کی معافی کا طلب گار ہوتا ہے اور صدق دل سے توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کرتا ہے اس کے دیگر ساٹھ ساتھی بھی معافی کا رستہ اختیار کرکے ڈکیتی کی راہ ترک کرتے ہیں، یوں ہم دیکھتے ہیں کہ والدہ کی تربیت اور نصیحت کیسے ڈاکوئوں کے پورے گروہ کی کایا پلٹ کا باعث بنتی ہے اور ڈاکوئوں کا پورا گروہ نوعمر عبدالقادر جیلانی کے پیروں پر گر کر معافی کا طلبگار اور ان کے دست حق پر توبہ کا طلب گار ہوتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں بغداد آنے کے بعد ماں کے لاڈلے نوعمر یتیم عبدالقادر کے لیے کوئی دودھ شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں ان کیلئے سب سے بڑا امتحان اللہ کی راہ میں دینی علوم،عبادت وریاضت کا حصول تھا جس کیلئے انہوں نے معروف علماء کرام سے اکتساب کیا،اور فاقہ کشی بھی ان کے آڑے نہ آئی۔