سیکولرزم‘ لبرلزم اور اسلام…(قسط4)

محمد فاروق ناطق..........
بنیادی طور پر یہ وہ شخص ہے جسے جدید اصطلاح کی زبان میں ہم سیکولر کہہ سکتے ہیں۔ عیسائی مبلغین کی پہلی کانفرنس 50ء میں منعقد ہوئی (جس میں سینٹ پال نے بھی شرکت کی) جس میں توریت کے کئی احکامات کی پابندی سے غیر اسرائیلیوں کو استثنیٰ دیا گیا البتہ انہیں زنا‘ بت پرستی اور خون آمیز گوشت کھانے سے منع کیا گیا۔ اس وقت تک عیسیٰؑ کے خدا ہونے کا عقیدہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ عیسائیت کے عقائد کی تعلیم اور اشاعت رومن دور میں ممنوع تھی اور مبلغین پر بہت تشدد کیا جاتا تھا۔ تشدد کا یہ سلسلہ اس وقت رکا جب رومن شہنشاہ کا نسٹنٹائن نے تقریباً 312ء میں عیسائیت قبول کر لی‘ لیکن یہ محض عقیدہ کی قبولیت تھی ورنہ کاروبارِ مملکت پرانے رومن طریقہ پر ہی چلتا رہا اور اس معاملے میں کسی عیسائی عالم کا کوئی اعتراض ریکارڈ پر موجود نہیں ہے۔ عیسائیت کے سرکاری مذہب بن جانے کے باوجود مملکت کے سیکولر ہونے کی یہ پہلی مثال تھی۔ اس حکومتی سیکولرزم کی وجہ یہ تھی کہ سینٹ پال کی تعلیم کے مطابق عیسائی عقیدہ اختیار کرنے کے بعد دنیاوی معاملات سے خدا کا تعلق ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ 325ء میں نیقیہ کے مقام (موجودہ ترکی میں ازنک) پر تقریباً تین سو عیسائی بشپ اکٹھے ہوئے جنہوں نے بحث مباحثے کے بعد اس عقیدہ کا اعلان کیا کہ عیسیٰؑ خدا کے بیٹے اور اس کی ذات کا حصہ ہیں (اس طرح عیسیٰؑ کے خدا ہونے کا عقیدہ پیدا کیا گیا) تقریباً 476ء میں جرمن گاتھ حکمرانوں کے ہاتھوں مغربی یورپ میں رومن سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ گاتھ چونکہ قبائلی طرزِ زندگی کے عادی تھے اس لئے انہوں نے کوئی مرکزی حکومت قائم نہیں کی جس کے نتیجے میں مغربی یورپ میں ہر طرف طوائف الملوکی پھیل گئی۔ ہر جگہ چھوٹی چھوٹی بادشاہتوں اور جاگیرداریوں نے جنم لیا اور باہم جنگ وجدال شرو ع ہو گئی۔ یہ سلسلہ تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ اس عرصہ کو یورپ کا تاریک دوریا ازمنہ وسطیٰ کہا جاتا ہے۔ اسی دور میں عیسائیت میں پوپ کے منصب کا آغاز ہوا اور اسے مذہبی معاملات میں مکمل دسترس حاصل ہو گئی‘ اس کا کہا خدا کا کہا سمجھا جانے لگا۔ یہی دور تھا جب مصر کے صحرا میں رہنے والے کچھ عیسائی مبلغین نے رہبانیت اختیار کی۔ 500ء میں سینٹ بینی ڈ کٹ روم میں لوگوں کی اخلاقی بے راہروی سے اس قدر تنگ آیا کہ اس نے اپنی تعلیم کو خیر باد کہا اور ایک غار میں رہائش اختیار کی تاکہ اپنے نفس کو پاک رکھ سکے۔ اس مقصد کیلئے اس نے اور لوگوں کو بھی دعوت دی۔ جب ایک اچھی خاصی تعداد شاگردوں کی میسر آ گئی تو 529ء میں اس نے باقاعدہ ایک راہب خانے کی بنیاد رکھی اور راہبوں کیلئے ضابطے تحریر کئے جو آج بھی راہب خانوں میں نافذ العمل ہیں۔ ان ضوابط میں راہبوں کیلئے شادی کی ممانعت‘ مہمانوں سے آزادانہ ملنے پر پابندی‘ مخصوص لباس پہننے کی پابندی‘ سونے جاگنے‘ سفر کرنے اور ملنے ملانے‘ کھانے پینے کے آداب اور طریقے شامل تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ رہبانیت اختیار کرنے والوں نے پاکی ٔ نفس کیلئے غلو اور اس سے بڑھ کر انسانی جسم وجان پر بے جا پابندیاں اور تشدد شروع کیا جو کہ انسانی فطرت کے خلاف تھا۔ اسی کی تعلیم یہ لوگ عوام کو دیا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ راہب لوگوں اور خدا کے درمیان واسطہ بن گئے اور مذہبی معاملات میں انہیں ایک ناقابل چیلنج اختیار حاصل ہو گیا۔ ایک طرف ان راہبوں کے دنیاوی امور سے الگ ہو جانے اور خود کو راہب خانوں تک محدود کرنے کے باعث حکومتوں کیلئے سیکولر ہونے کو ایک طرح کا کھلا میدان اور جواز فراہم ہوا تو دوسری طرف راہبوں‘ بشپوں اور پوپ کی اس مطلق العنانی نے اختیار کے غلط استعمال کو جنم دیا اور شہنشاہ کا نسٹنٹائن کے عہد میں منعقدہ کونسل آف نیقیہ میں طے کردہ عیسائی عقیدہ سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف سخت متشددانہ رویہ اختیار کیا گیا۔
عیسائی دنیا میں سینکڑوں برس تک اس صورتِ حال کے جاری رہنے سے انسانی فطرت میں اس کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی۔ پوپ چونکہ اٹلی کے شہر روم میں موجود تھا اس لئے تحریک احیائے علوم کا آغاز بھی (چودھویں صدی عیسوی میں) روم ہی سے ہوا۔ اس تحریک کے اثرات سے لوگوں نے راہبوں اور پادریوں کی سوچ وفکر سے آزاد ہو کر سوچنا شروع کر دیا۔ اس زمانے کے فلسفیوں اور دانشوروں نے دلائل کے ذریعے عیسائیت کے مذہبی عقائد کا غیر عقلی اور غیر فطری وغیر منطقی ہونا لوگوں کے سامنے ثابت کرنا شروع کیا۔ سولہویں صدی عیسوی میں بائبل میں دی گئی کائنات اور زندگی سے متعلق بعض معلومات کے سائنسی طور پر غلط ثابت ہونے سے مذہبی عقیدہ کی لوگوں پر گرفت بالکل کمزور پڑ گئی۔ یہ بغاوت عیسائیت کے ایسے قوانین اور ضوابط کے خلاف نہیں تھی جو حکومتی معاملات‘ طرزِ معاشرت‘ معیشت وغیرہ سے متعلق ہوتے کہ ایسے قوانین تو عیسائیت میں تھے ہی نہیں بلکہ عیسائیت تو محض ایک عقیدہ کا نام تھی جسے نیقیہ کی کونسل نے عیسیٰؑ کی تعلیم اور توریت کے احکامات کو نظر انداز کر کے سینٹ پال کے خوابوں اور روحانی مکاشفات کے نتیجے میں اختیار کیا تھا اور انسان کی نجات کیلئے لازمی قرار دیا تھا۔ یہ عقیدہ چونکہ یونانی دیومالا اور یونانی فلسفہ کے زیرِ اثر پروان چڑھا تھا اس جدید سائنسی انکشافات واکتشافات کی ذرا سی ٹھوکر بھی نہ سہہ سکا۔انسانیت پر اثرات: یورپ کے عوام چونکہ راہبوں کے غیر فطری مذہبی رجحانات سے تنگ آ چکے تھے اور سارا یورپ عیسائی علماء کے صدیوں تک جاری رہنے والے فقہی اور مذہبی جھگڑوں اور لڑائیوں کے نتائج کو بھی بھگت چکا تھا اس لئے مذہبی عقیدہ سے بغاوت یورپ کے اجتماعی ضمیر میں جلد جذب ہو گئی۔(جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن