متحدہ قومی موومنٹ کے ایما پر سندھ میں بلدیاتی آرڈی نینس جاری کردیا گیا ۔جس پر سندھ میں بڑی اتحادی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی اعلیٰ قیادتیں بڑی خوشی کا اظہار کر رہی ہیں جبکہ سندھ حکومت کی ہی متعدد اتحادی پارٹیاں اے این پی نیشنل پیپلز پارٹی اور فنکشنل لیگ ناراضگی بلکہ اشتعال کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے نہ صرف قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس کا بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے بلکہ سندھ کابینہ میں موجود اپنے وزیر امیر نواب کے مستعفی ہونے کا بھی اعلان کردیا ہے۔ بلدیاتی آرڈی نینس کی متنازعہ حیثیت کے باعث فنکشنل مسلم لیگ کے سربراہ پیرپگارا نے بھی اسے مسترد کیا اور اپنے وزرا کو سندھ کابینہ سے واپس بلا لیاہے۔ مسلم لیگ ن،جماعت اسلامی اور سندھ کی تمام قوم پرست جماعتوں نے اس آرڈیننس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے مسترد کیا ہے۔ قوم پرست جماعتیں تو باقائدہ ہڑتال کر رہی ہیں۔ خود پیپلز پارٹی کی صفوں میں بھی اس آرڈی نینس کی مخالفت پائی جاتی ہے۔ اس آرڈی نینس کے متنازعہ ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ سندھ میں اس آرڈی نینس کے بعد دو الگ الگ سسٹم ہونگے۔ کراچی‘ حیدرآباد‘ نوابشاہ‘ لاڑکانہ اور میرپورخاص میں میٹروپولیٹن سسٹم اور باقی اضلاع میں کونسلز سسٹم ہو گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میئر اور لارڈ میئر والا میٹرو پولیٹن سسٹم اگر پانچ شہروں کیلئے افادیت رکھتا ہے تو اسکی افادیت باقی شہروں کیلئے کیوں نہیں؟ کونسلز سسٹم اگر صوبے کی دیگر آبادی کیلئے سودمند ہے تو اسکے فوائد سے مذکورہ پانچ شہروں کو کیوں محروم رکھا جا رہا ہے؟۔کیا معاملات سندھ کی تقسیم کی طرف تو نہیں جارہے ؟۔جس کی ایک ہی صوبے میں دو بلدیاتی نظام لاگو کرکے بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما چودھری نثار علی خان اورعوامی نیشنل پارٹی کے شاہی سید نے بھی ان خدشات کا برملا اظہار کیا ہے۔
بہرحال یہ تو متحدہ قومی موومنٹ کا مطالبہ تھا جو اس نے مسلم لیگ (ن) کے کندھے پر بندوق رکھ کر پیپلز پارٹی سے منوالیا ہے‘ تین چار روز قبل متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں کے مابین اسلام آباد میں ملاقات ہوئی اور مزید ملاقاتوں کی دعوت کا تبادلہ بھی کیا گیا۔ شہباز شریف نے نائن زیرو جانے کی بات کی۔ ایم کیو ایم نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ملاقات اور دیگر معاملات میں پیشرفت کا تاثر دینے کی کوشش کی کہ انکی بات نہ مانی گئی تو وہ نیا راستہ اختیار کر سکتی ہے۔ یہ نوبت آنے سے قبل ہی حکومت نے ایم کیو ایم کے سامنے سرینڈر کرتے ہوئے صوبے میں ایسے بلدیاتی آرڈی نینس کا اجراءکر دیا جس کے باعث دو نظاموں کی کھچڑی پکے گی۔ قبل ازیں صدر مملکت آصف علی زرداری متحدہ قومی موومنٹ کو ہم سفر رکھنے کیلئے عام انتخابات سے قبل بلدیاتی الیکشن کرانے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔
موجودہ صوبائی حکومتوں کی بڑی نااہلی یہ ہے کہ بلدیاتی حکومتوں کے خاتمے کے بعد چپ سادھ لی گئی۔ عدلیہ نے کئی بار بلدیاتی الیکشن کرانے کی یاددہانی کرائی لیکن اس پر کسی حکومت نے کان نہ دھرا۔ مرکز نے بھی دلچسپی لی‘ نہ سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ اب جبکہ عام انتخابات میں چند ماہ رہ گئے ہیں‘ مرکز بلدیاتی الیکشن کرانے کیلئے سرگرم ہو گیا ہے‘ جس سے حکومت کی” نیک نیتی“ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بلدیاتی الیکشن ضرور ہونے چاہئیں۔ چیف الیکشن کمشنر بھی یقیناً اس آئینی تقاضے کو بخوبی سمجھتے ہیں لیکن بلدیاتی الیکشنز کوعام انتخابات ایک دن بھی موخر کرنے کا جواز نہیں بننے دینا چاہیے۔ اگر بلدیاتی انتخابات عام انتخابات کے انعقاد کو کسی بھی صورت متاثر کرتے نظر آئیں تو بلدیاتی الیکشن کے انعقاد سے کہیں بڑا آئینی تقاضہ عام انتخابات کا انعقاد ہے اور یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔ حکمران عام انتخابات مو¾خر کرانا چاہتے ہیں تاکہ زرداری صاحب کو یہی اسمبلیاں ایک بار پھر صدر منتخب کر لیں۔ اس کیلئے لاءاینڈ آرڈر کو جواز بنایا جا سکتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا بہانہ کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ ہمسایہ ملک ایران نے جنگ کے دوران بھی انتخابات کرا دیئے تھے۔ مولانا فضل الرحمان نے درست کہا‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے باوجود انتخابات ہو گئے تھے تو اب کیوں انکے التواءکی تدبیریں ہو رہی ہیں؟ آج قوم زبردست سیاسی تبدیلی کے موڈمیں ہے‘ یہ تبدیلی جتنی جلد ممکن ہو‘ ہو جانی چاہیے جو ملکی مفاد کیلئے انتہائی اہم اور ضروری ہے۔ اگر الیکشن قبل ازوقت نہیں ہو سکتے تو بروقت ضرور ہونے چاہئیں۔ ان میں تاخیر کی جہاں بھی منصوبہ بندی ہو رہی ہے‘ اس کو تمام محب وطن پارلیمنٹ کے اندر اور باہرکی پارٹیاں اور تمام طبقات مل کر ناکام بنا دیں۔