یہ منظر بڑا شرمناک تھا جب برطرف اور نااہل وزیراعظم گیلانی کے صاحبزادے ممبر قومی اسمبلی علی موسٰی گیلانی کو گرفتار کیا جا رہا تھا۔ وفاقی حکومت کے لوگ اُسے جپھا مار کے گاڑی میں سے نکال رہے تھے۔ اس کے دوست دوسری طرف سے اُسے کھینچ رہے تھے مگر کسی ”وفادار“ دوست نے گاڑی سے نیچے اترنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ اب ”بڑے“ گیلانی صاحب کی سمجھ میں آیا ہو گا کہ اقتدار کیا چیز ہوتی ہے۔ وہ تو اپنے پیارے بیٹوں کے لئے تفتیشی افسر اور محکمے کے لوگ اس طرح تبدیل کرتے تھے جیسے اپنے قیمتی سوٹ تبدیل کرتے ہیں۔ وہ خود استعفٰی دیتے مگر ان میں یہ جرا¿ت کہاں اور پھر یہ کام انہیں کرنے نہیں دیا گیا جس کام میں تھوڑی سی عزت ہو۔ وہ کسی حکمران کو نہیں کرنے دیا گیا اور گیلانی صاحب کو تو ایک سازش کے تحت اپنے زوال اور رسوائی کی طرف لایا گیا۔
علی موسٰی بھی اپنے باپ کا بیٹا ہے۔ وہ خود گرفتاری پیش کرتا۔ مگر کیوں کرتا۔ ایسے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ عزت بے عزتی میں کیا فرق ہے۔
اپنے بڑے بیٹے عبدالقادر گیلانی کی بجائے نااہل اور برطرف وزیراعظم گیلانی نے اپنے وزیر اور پیر حامد سعید کاظمی کو جیل بھجوایا مگر عبدالقادر گیلانی بچ نہیں سکے گا۔ وہ بھی عنقریب اسی طرح گرفتار ہو گا جیسے چھوٹا بھائی گرفتار ہوا ہے۔ گیلانی کا کوئی اور بیٹا ہے کہ نہیں۔ پہلے اُسے ممبر اسمبلی دھاندلی سے بنوایا جائے گا اور پھر وہ کرپشن کرے گا اور بہت ”شان“ سے گرفتار ہو گا۔ گیلانی کی اہلیہ محترمہ کا نام کہیں نہ کہیں لیا جا رہا ہے۔ ایم بی بی ایس کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے۔ ”میاں بیوی بچوں سمیت“۔ ڈاکٹروں سے معذرت کے ساتھ۔ شیخ رشید کہتے ہیں کہ اتنی اور ایسی کرپشن کی مثال دنیا کی تاریخ بلکہ پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
بیٹے تو اور سیاستدانوں کے بھی ہیں ان میں سے کچھ کے بارے میں باتیں بھی ہوتی ہیں مگر ایسا نہیں ہوتا جو گیلانی صاحب کے بیٹوں کے ساتھ ہوا ہے۔ بجائے اس کے کہ عبرت پکڑی جائے۔ اسے اپنی ”عزت“ کا حوالہ بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔ علی موسٰی گیلانی کو سپریم کورٹ نے ریلیف دیا اور 25 ستمبر تک ضمانت پر چھوڑ دیا۔ وہ اپنے والد کو سمجھائے کہ وہ سپریم کورٹ کے خلاف ہرزہ سرائی کیوں کرتے ہیں۔ خود تو سپریم کورٹ کے سامنے دم نہ مار سکے اور اب وزیراعظم پرویز اشرف کے لئے چاہتے ہیں کہ وہ بھی جائیں۔ گیلانی صاحب کو وزیراعظم نہ رہنے کا جو صدمہ ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ اب اُنہیں معلوم ہوا ہے مگر وہ ابھی مجبوراً ظاہر نہیں کرنا چاہتے کہ ساری پیپلز پارٹی بالخصوص رحمن ملک، صدر زرداری، اعتزاز احسن اور عرفان قادر یہ چاہتے تھے کہ سپریم کورٹ انہیں نااہل کرے اور وہ ہماری جان چھوڑیں۔ علی موسٰی گیلانی خوب جانتا ہے کہ وہ اپنے باپ کے راستے پر چلا تو سوائے ذلت کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
اب عرفان قادر کہتے ہیں کہ گیلانی کی نااہلی ایک حادثہ تھی۔ اب یہ واقعہ نہیں ہونے دیں گے۔ کوئی ایسا حکم سپریم کورٹ کی طرف سے نہیں مانیں گے جو آئین کے مطابق نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ کہ گیلانی کی نااہلی کا فیصلہ بھی آئینی نہ تھا۔ وہ بلا چون و چرا تسلیم کیا گیا۔ کچھ غیر آئینی فیصلے مان لئے جاتے ہیں اور کچھ فیصلے نہ ماننے کا صرف اعلان کیا جاتا ہے۔ مان وہ بھی لئے جاتے ہیں۔ رحمن ملک اور ریاض شیخ نے فیصلے مانے جبکہ صدر زرداری نے آرڈیننس کے ذریعے انہیں بے اثر کر دیا۔ ایسی کوئی کارروائی یوسف رضا گیلانی کے لئے نہیں کی گئی۔
اعتزاز احسن کو بھی ذلیل و خوار کر کے پیچھے کر دیا گیا۔ گیلانی کے اس وکیل کو شرمندہ ہونا پڑا کہ اُنہیں پرویز اشرف کا وکیل نہیں بنایا گیا ورنہ اس کا حشر بھی گیلانی جیسا ہوتا جو پیپلز پارٹی اور صدر زرداری نہیں چاہتے۔ صدر زرداری کو معلوم ہوتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ سیاست کس طرح کرنا ہے اور ”دوستوں“ کے ساتھ سیاست کس طرح کھیلنا ہے۔ ان سب وکیلوں سے ڈاکٹر بابر اعوان اچھے رہے کہ وہ اپنی بات پر ثابت قدم رہے اور سرخرو ہوئے۔ وزیراعظم گیلانی کے لئے جھوٹی گواہی نہ آئی۔ اعتزاز بھی شرمندہ ہوئے۔ صدر زرداری اندر سے بابر اعوان کو پسند کرتے ہیں۔ اُس کی پسند و ناپسند کا ڈاکٹر قیوم سومرو کوق بھی پتہ نہیں۔ وہ آجکل اپنی پسند و ناپسند چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہمیں عرفان ”قادر مطلق العنان“ کی بہت سی باتوں سے اختلاف ہے مگر یہ بات ہمیں ہضم نہیں ہو رہی کہ عدالت مسلم لیگ ن کے خلاف مقدمات کو سردخانے میں ڈال دیتی ہے۔ یہ تاثر بہرحال ختم کرنا ہو گا کہ عرفان قادر یہ بات پھر نہ کریں۔ عدالت پر کوئی الزام لگانے کی جرات کسی کو نہیں ہونا چاہئے۔
علی موسٰی گیلانی کی یہ بات اچھی لگی کہ میں عدالت کا احترام کرتا ہوں۔ یہ بات عدالت سے ریلیف ملنے کے بعد کہی گئی ہے۔ وہ یہ بات پہلے کرتا تو اس کے معانی کچھ اور ہوتے۔ اگر نااہل وزیراعظم گیلانی سپریم کورٹ سے سزا پانے کے بعد سپریم کورٹ سے باہر آتے ہی استعفٰی دے دیتے تو وہ بہت عزت پاتے۔ مگر عزت نااہل آدمیوں کو راس ہی نہیں آتی۔ پھر جب نااہلی کا فیصلہ قبول کر لیا تو وہ اس فیصلے کے خلاف بات نہ کرتے مگر انہوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول ہی نہ کیا تھا انہوں نے صدر زرداری کا فیصلہ قبول کیا۔ ابھی وہ آگے آگے دیکھتے جائیں کہ صدر زرداری ان کے ساتھ کیا کیا کرتے ہیں۔
علیٰ موسٰی گیلانی نے بڑے دھڑلے سے بات شروع کی مگر وہ صحافیوں کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔ جمشید دستی نے بھی کوشش کی مگر وہ بھی ناکام ہوا۔ حنا ربانی کھر کے خلاف بات کرنا آسان ہے مگر کرپٹ وزیراعظم کے بیٹے کے حق میں بات کرنا آسان نہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ یہی پہلی بات ہے مجھے علی موسٰی گیلانی کی شرمناک گرفتاری کا منظر نہیں بھول رہا۔ اس کے دوستوں کی بزدلی پر بھی افسوس ہے۔ اگر اس گاڑی میں آصف ہاشمی ہوتے اور حیرت ہے کہ وہ کیوں نہیں تھے۔ اُنہیں بھی علی موسٰی گیلانی کے ساتھ گرفتار کر لیا جاتا وہ گیلانی خاندان کے شریک کار ہیں۔ تفتیش میں اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ آصف ہاشمی نے کئی دفعہ ”وزیراعظم“ گیلانی کی شہ پر کئی سینئر بیورو کریٹس کو دھکے مار کر دفتر سے نکال دیا۔ وہ ہاشمی صاحب اور ان کے ”دوستوں“ کو من مانی کرنے سے روکتے تھے۔ بیورو کریٹس کبھی اپنی بے عزتی کو نہیں بھلاتے۔ کرپٹ وہ بھی کم نہیں ہوتے۔ ان کا خیال ہے کہ اُن کے ساتھ مل ملا کے معاملات چلائے جائیں۔ ایک بات طے ہے کہ آصف ہاشمی اپنے ”محسنوں“ کو یاد رکھتے ہیں۔ علی موسٰی گیلانی کی شرمناک گرفتاری کا افسوس صرف آصف ہاشمی کو ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ کرپٹ ہے تو کیا ہوا۔ کرپشن اب اس ملک میں اتنا بڑا جرم نہیں۔ کون ہے ایوانوں میں جو کرپٹ نہیں۔