صدر زرداری نے کہا ہے کہ وہ ”لاہور میں بھی ایوانِ صدر بنائیںگے‘ جہاں پاکستان اور پیپلز پارٹی کے جھنڈے لہرائے جائیںگے“--- وزیرِاعظم کے مُشیر اسلم گِل نے صدر صاحب سے ملاقات کے بعد بتایا کہ ”کراچی میں بلاول ہاﺅس اور نوڈیرو میں بھٹو خاندان کی رہائش گاہ کو تو، پہلے ہی ایوانِ صدر بنا دیا گیا ہے‘ اب لاڑکانہ میں ایوانِ صدر بنایا جائے گا۔“
مجھے صدر زرداری کے زرخیز ذہن کی داد دینا پڑے گی‘ وہ وفاق کی عِلامت کہلاتے ہیں۔ کیوں نہ وفاق کو مزید مضبوط بنانے کے لئے لاہور کے ساتھ ساتھ‘ کوئٹہ‘ پشاور‘ گلگت اور آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں بھی ایوانِ صدر بنا دیا جائے۔ اور ہاں! سب سے پہلے اسلام آباد میں Pims کو بھی ایوانِ صدر نمبر 2 بنانے کا اعزاز بخشیں‘ جہاں صِرف سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پی کے کے گورنروں ، وزرائے اعلیٰ‘ صوبائی وزرائ‘ وزیراعظم‘ ڈپٹی وزیرِاعظم ‘ وفاقی کابینہ اور پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی کے ارکان اور اتحادی جماعتوں کے قائدین کا ہی علاج ہونا چاہئے۔
ایوانِ صدر نمبر 2 کی سیکورٹی کاانتظام اتنا سخت ہوکہ پرندہ بھی پر نہ مار سکے اور صدر زرداری جب چاہیں‘ بے خوف و خطر Pims میں زیرِ علاج احباب سے ملاقات کر سکیں۔ یہ اِس لئے بھی ضروری ہے کہ صدر زرداری کے والدِ محترم حاکم علی زرداری‘ انتقال سے پہلے Pims میں داخل تھے تو وہ اپنے والدِ محترم کی عیادت کے لئے وہاں نہیں جا سکے تھے۔
میری یہ بھی تجویز ہے کہ ایوانِ ہائے صدر ‘ پاکستان سے باہر بھی بنائے جائیں۔ سوئٹزر لینڈ‘ برطانیہ‘ امریکہ ‘ جرمنی اور ہراُس مُلک میں جہاں صدرِ محترم کی جائیداد یا ذاتی اکاﺅنٹس ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ‘ وفاقی وزیرِ قانون فاروق ایچ نائیک اور سینیٹر چودھری اعتزاز احسن‘ کوئی نہ کوئی ایسا نُکتہ تلاش کر لیں گے کہ صدرِ پاکستان کو اُن مُلکوں کی عدالتوں سے بھی استثنیٰ مِل جائے۔ بیرونِ مُلک ایوانِ ہائے صدر بنانے میں جتنے بھی اخراجات ہوں‘ پرواہ نہ کی جائے۔ قومی خزانے میں اب بھی بہت کچھ ہے۔ آخر قومی وقار بھی تو کوئی چیز ہے۔ کم از کم بیرونِ مُلک یہ تاثر تو زائل ہو جائے گا کہ پاکستان معاشی طور پر بدحال مُلک ہے۔ اوورسیز پاکستانی‘ خاص طور پر صدر زرداری‘ الطاف بھائی اور اسفند یار ولی خان کے عقِیدت مند‘ آخر کس دِن کام آئیں گے؟
اب رہا لاہور کو پیپلز پارٹی کا قلعہ بنانے کا مسئلہ ۔ صدر زرداری اور پیپلز پارٹی کے دوسرے درجے کے قائدین دو تِین سال سے ” تخت ِ لاہور“ پر قبضہ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ قبضہ زبردستی تو نہیں ہوگا، بذریعہ انتخاب پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد ہی ہو گا۔ لاہور ایک دور میں واقعی پیپلز پارٹی کا قلعہ تھا۔ نواب صادق حسین قریشی ‘ پیپلز پارٹی کے آخری وزیرِ اعلیٰ تھے۔ 35 سال ہو گئے پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنا وزیرِ اعلیٰ نہیں لا سکی۔
صدر زرداری بے شک مجھے Royalty بعد میں دے دیں۔ مَیں اُن کی خدمت میں ایک تِیر بہدف نسخہ پیش کر رہا ہوں اور وہ یہ کہ، عام انتخابات سے پہلے پنجاب کے ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر پر ایوانِ صدر بنا دیا جائے۔ ہر ضلعی ایوانِ صدر میں‘ ڈپٹی پرائم منسٹر‘ چودھری پرویز الٰہی ‘ وزیرِ دفاع سید نوید قمر، وزیرِ داخلہ رحمن ملک اور وزیر امورِ کشمیر میاں منظور احمد وٹو اور اُن کے سٹاف کے لئے انیکسیاں بنائی جائیں۔ ایک ایک انیکسی اتحادی جماعتوں‘ ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین کے لئے بھی بنائی جائے کیونکہ وہ بھی تختِ لہور پر ”نظرِ نیک“ لگائے بیٹھے ہیں۔
میری یہ بھی تجویز ہے کہ پنجاب کے ہر ضلع کے ایوانِ صدر میں ضلع‘ شہر اور تحصیل میں پیپلز پارٹی کے دفاتر بھی بنائے جائیں تاکہ ان تنظیموں کے عہدیداروں کا بھی اقبال بلند ہو اور وہ حسب ِ روایت بھوکے ننگے اور بے گھر عوام کی خدمت بھی کر سکیں ‘ کم از کم انہیں ایوانِ صدر کی سیر تو کروا سکیں۔ تجویز یہ بھی ہے کہ ہر ضلعی ایوانِ صدر میں ‘ پیپلز پارٹی کے شہدا¿ ذوالفقار علی بھٹو‘ بے نظیر بھٹو‘ میر مرتضیٰ بھٹو‘ شاہ نواز بھٹو اور غازیوں آصف علی زرداری ‘ بلاول زرداری بھٹو‘ اُن کی دونوں ہمشیرگان‘ بختاور بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری کے مجسمے رکھے جائیں۔ لندن اور نیو یارک میں میڈم تساﺅ میوزیم کے مجسموںکی طرح ۔ جب کوئی سائل ایوانِ صدر حاضر ہو تو سب سے پہلے وہ ان مُشاہِیر کے مجسموں پر پھول چڑھائے۔ اِس طرح پھول فروشوں کا کارو بار بھی چمک اٹھے گا اور وہ صدر زرداری اور اُن کی آل اولاد کو دُعائیں دیں گے۔
ہر ضلعی ایوانِ صدر میں ایلیٹ کلاس کی تفریح کے لئے ایک سینما ہاﺅس بنایا جائے۔ جِس کا نام Bambino رکھا جائے۔ اِس طرح ہمارا ثقافتی ورثہ بھی محفوظ رہے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ضلعی ایوانِ ہائے صدر کے لئے زمین‘ سامانِ تعمیر‘ آرائش و زیبائش‘ دیکھ بھال اور روزمرّہ کے اخراجات کے لئے روپیہ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ تو، اِس معاملے میں قومی خزانے پر بوجھ نہ ڈالا جائے‘ البتہ پنجاب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے امیدواروں سے حسب ِ استطاعت پارٹی کے لئے چندہ لِیا جائے۔ اور زیادہ چندہ دینے والوں کو پنجاب سے باہر پلاٹ پرمٹ اور مختلف اشیاءکی درآمد کے لائسنس دیئے جائیں، سرکاری خرچ پر حج اور عُمرے کرائے جائیں اور درجہ اوّل، دوم اور سوم کے سرٹیفکیٹس دیے جائیں۔
مزید یہ کہ ہر ضلعی ایوانِ صدر کے گرد ا گرد دُکانیں بنائی جائیں۔ دُکانیں ، ملکیت، پگڑی اور کرایہ پر دی جائیں۔ اس معاملے میں پیپلز پارٹی کے مخلص کارکنوں کو ترجیح دی جائے۔ ہر دکان پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لہرانالازمی قرار دیا جائے۔ بحریہ ٹاﺅن کے سابق سربراہ ملک ریاض حسین کے تجربے اور خداداد صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے اوراُنہیں ضلعی ایوان ہائے صدر کا پراجیکٹ ڈائریکٹر مقرر کیا جائے اور اتفاق سے پنجاب کے دو سابق وزرائے اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی اور میاں منظور احمد وٹو صدر زرداری کے دائیں اور بائیں بازو ہیں۔ دونوں صاحبان زمیندار اور باوسائل سیاستدان ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو ،پنجاب کے 36 اضلاع میں سے کم از کم 10 اضلاع میں ایوان ہائے صدر بنا اور چلا سکتے ہیں۔ اس کارِِخیر کے لئے فنڈز جمع کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہر ضلعی ایوانِ صدر میں صدر زرداری اپنا ایک نائب ۔۔۔ نائب صدر (Deputy President) بھی بٹھا دیں۔ امیدواروں سے درخواستیں یا ٹینڈرز طلب کئے جا سکتے ہیں۔ آخری فیصلہ تو صدر زرداری کا ہی ہوگا۔
پنجاب کے ہر ضلع میں ایوانِ صدر!
Sep 15, 2012