جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں پاکستان میں جو ڈیم بنے اس سے پانی کے ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار کا بندوبست بھی کیا گیا۔ مگر جیسے جیسے ماہ وسال گزرتے گئے اور آبادی میں اضافہ ہوتا گیا، بڑھتی ہوئی ضروریات زندگی اور بجلی کی طلب پوری کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہ کئے گئے۔ ایک طرف الیکٹرانک مصنوعات کی بڑھتی ہوئی پیداوار نے عام آدمی کیلئے اس کا حصول آسان بنا دیا تو دوسری جانب پاکستان جیسے پسماندہ ملکوں میں بجلی کی کھپت میں اضافہ قومی سطح پر ایک مسئلہ کی شکل اختیار کر گیا۔ ملک میں جیسے جیسے بجلی کی مانگ بڑھتی گئی لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
ہمارے ہاں بجلی کی کھپت اور اس کی پیداوار میں فرق کی اہم وجہ نئے ڈیموں کی تعمیر میں تاخیری حربے ہیں ۔کالا باغ ڈیم کا منصوبہ اگر مکمل ہو جاتا تو آج نہ صرف پاکستان کے عوام کو سستی بجلی مہیا ہوتی بلکہ آج سیلاب بلاخیز کا بھی سامنا نہ کرنا پڑتا۔
اس وقت جس بلائے ناگہانی نے پنجاب اور سندھ کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اس سے بھی نجات مل جاتی ۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ کل کی طرح آج بھی سرکاری فائلوں کی تہہ میں گل سڑ رہا ہے اور اس کے مقابلے میں پڑوسی ملک بھارت اب تک اپنے ہاں چھوٹے بڑے درجنوں ڈیموں کی قانونی اور غیر قانونی تعمیر کر چکا ہے۔
بھارت عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک طرف پاکستان کی طرف آنے والے پانی کے بہائو کو روک رہا ہے دوسری طرف بالائی علاقوں میں شدید بارشوں اور برف پگھلنے سے جمع ہونے والا زائد پانی اچانک پاکستان کی طرف کھلا چھوڑکر اپنی روایتی دشمنی کا ثبوت بھی دی رہا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں آج جو سیلاب کی آفت ہے یہ ان بھارتی منصوبوںکا ہی نتیجہ ہے ۔ پنجاب شدید طوفانی بارشوں کے نتیجہ میں پہلے ہی مشکلات کا شکار تھا کہ بھارت نے آج ایک بار پھر اپنے ڈیموں کا دھانے کھول کر پاکستان خاص طور پر پنجاب کو ڈبو دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اب تک سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی اور لاکھوں بے گھر ہو کر بے سروسامانی کی حالت میں ریلیف کیمپوں اور کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ موجودہ صورت حال کے صرف دوسرے ہی ذمہ دار نہیں دوسروں کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کا بھی قصور ہے۔ آج وقت کا تقاضاہے کہ ہم سب اختلافات بھلا کر اپنے بھائیوں کی مدد کیلئے آگے آئیں اور دھرنے ختم کر کے سیلاب کے شکار عوام کو ریلیف کے لئے عملی اقدامات کریں۔
وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب متاثرہ علاقوں کے طوفانی دورے کر رہے ہیں اور انتظامیہ بھی دن رات اقدامات کر رہی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس سیلاب بلاخیز سے ہونے والی تباہی بہت زیادہ ہے۔ بحالی کے کام اور امدادی سرگرمیوں کے نتیجے میں اگرچہ یہ وقت بھی گزر جائے گا مگر ہمیں چاہئیے کہ ایسے دیر پا اقدامات کریں جس سے سیلاب جیسی آفت سے کوب اچھی طرح نمٹا جا سکے اور یہ بلا ہمارے سرسبز کھیتوں اور اس کی ہریالی کو اپنی لپیٹ میں نہ لے سکے۔ ایسا صرف اسی صورت میںہو سکتا ہے کہ اس لئے ملک میں زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر کئے جائیں۔