نواب غوث بخش باروزئی کے دشمن زیر پا

خدا نے ان کے چہرے کو ہزار رنگوں سے سجایا ہے ، ا س پر بشاشت کھیلتی ہے، اس سے بھرپور طمانیت کااحسا س ہوتا ہے، اس پر ہر لحظہ متانت طاری رہتی ہے اور اس پر انسانیت کا گمان ہی نہیں، اس کا یقین ہو جاتا ہے۔ یہ ایک انسان کا چہرہ ہے جو انسانوںکو بھلا لگتا ہے۔
یہ ہے پچھلے چار دنوں کی ملاقاتوں کا حاصل، نہ اس سے کم ، نہ اس سے زیادہ، ان کو پڑھنے کے لئے ان چوٹیوں کو عبور کرنا پڑے گا، جن کے سنگلاخ سائے میں انہوں نے پرورش پائی۔ اور جن کی وحشتوں کو انہوںنے رحمتوںمیں بدلنے کی کوشش کی۔ اس کے لئے انہیں صرف تین ماہ ملے اور یہ تین صدیوں پر محیط رہیں گے، ایک ایسی حکومت ورثے میں چھوڑی جو بلوچستان میں پاکستان کا پرچم پھر سے لہرانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
ان کا پیدائشی نام خدا یار ہے، مگر وہ غوث بخش ہو گئے، پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر مگر عملی سیاستدان اور دو ہزار تیرہ میں نگران وزیر اعلی اس طرح بنے کہ سبکدوش ہونیو الے چیف منسٹرا ور اپوزیشن لیڈر نے انہیں اس منصب کے لئے متفقہ طور پر نامزد کیا۔ان کا کہنا ہے کہ وہ آخری لمحے تک مکمل اختیارات کے مالک تھے، انہی اختیارات کے بطن سے ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت وجود میں آئی۔
وہ بات بات پر اپنے بابا کو یاد کرتے ہیں۔ بابا اپنے والد کو کہتے ہیں۔ وہ بلوچستان ا سمبلی کے اسپیکر رہے۔
ایک بار وہ کوئٹہ سے اپنے آبائی علاقے سبی کی طرف جیپ میں سفر کر رہے تھے، راستے میں بلند چوٹیوں کی طرف بابا نے اشارہ کرتے ہوئے کہا، یہ سب سونے چاندی کے پہاڑ ہیں۔ میں یہ سب تمہارے نام کرتا ہوں۔ اس پر خدا کا شکر کرنا اور دو نفل ادا کرنا اور کبھی تم سے یہ سارے چھن جائیں تو بھی خدا کا شکر کرنا اور دو نفل پڑھنا ،کوئی نعمت میسر نہ رہے تو ا س میں بھی اللہ کی حکمت ہوتی ہے، ا س پر اس کا شکر بجا لانا ضروری ہے۔
کہتے ہیں کہ تیرہ کے انتخابات کے بعد ان کا نام اگلے گورنر کے طور پر لیا جا رہا تھا،وہ عمرہ ا ور زیارتوں کے لئے حرمین شریفین چلے گئے۔ کعبہ کے دروازے پر، روضہ رسول ﷺ کی جالی کے سامنے اور بدر کے میدان میںہر دم وہ خدا کا شکر بجا لاتے رہے، واپس ہوٹل گئے، ٹی وی آن کیا تو ایک پاکستانی چینل پر ٹکر چل رہا تھا کہ ان کے صوبے میں نئے گورنر نے حلف اٹھا لیا ہے۔ انہیں باباکی بات یاد آئی، فوری طور پر وضو کیا، مسجد نبوی میں دو رکعت نفل ادا کئے ۔وہ خوش تھے کہ انہیں یہ منصب نہیں ملا تو اس میں اللہ کی حکمت ہے۔
میں یہ بتاناتو بھول ہی گیا کہ غوث بخش میرے لئے نئے ہو سکتے ہیں مگرنظریہ پاکستان ٹرسٹ اور نوائے وقت والوںکے لئے نئے نہیں۔ وہ بلوچستان میں پاکستان کی سچی، کھری ا ور حقیقی علامت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔دبنگ لب ولہجے میں گفتگو کرنے کا سلیقہ کوئی ان سے سیکھے۔
کسی بلوچ سردار کے بارے میں ان سے پوچھیں تو وہ جواب میںمسکرا دیتے ہیں،کہتے ہیں جن کو سرداریاں انگریزوں سے ملیں، ان کی فکر کیوں کرتے ہو۔اور ایک لطیفہ بھی سن لیجئے جو انہی کی زبان سے سننے کو ملا۔ کہتے ہیں ، ایک شخص نوادرات کی دکان پر گیا،ا سے ایک پینٹنگ پسند آئی، یہ کسی سردار کی تھی اور بہت مرصع جیسے موتیوںمیں جڑی ہوئی۔ قیمت پوچھی تو پتہ چلا کہ پانچ سو روپے میں ملے گی، خریدار نے جیب ٹٹولی، ساڑھے چار سو روپے نکلے، بڑی منت سماجت کی کہ پچاس کم کر دو مگر دکان کا مالک پانچ سو روپے پرا ڑا رہا۔ کچھ دنوں بعد یہ مبینہ خریدار اپنے کسی دوست کے گھر گیا تو وہی پینٹنگ دیوار پرا ٓویزاں دیکھی، پوچھا یہ کون صاحب ہیں ، دوست نے کہا کہ یہ میرے پردادا کی تصویر ہے۔ انہوں نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا کہ ا گر ان کی جیب میں پچا س کا ایک اور نوٹ ہوتا تو یہ اس کے پردادا ہوتے۔
تو پانچ سو روپے میں کوئی بھی اپنا بڑی شان والا دادا خرید سکتا ہے۔
یہ حال ہے آجکل کے سرداروں کا۔
کہتے ہیں اکبر خان کو خواہ مخواہ مار کر اکبر اعظم بنا دیا۔ وہ کینسر کے مریض تھے، خون کے لوتھڑے ان کی شریانوں میںجمع ہو جاتے تھے اور ٹیکے لگا کر خون پتلا کر کے زندگی کے دن پورے کر رہے تھے، ہاتھ میں ہر وقت پستول رکھتے، حملے کا ہر وقت ڈر تھا اورمحافظوں کو حکم تھا کہ جیسے ہی کوئی پکڑنے آئے ، گولی چلا دو۔ اور ہوا بھی یہی، چند فوجی ان کو پکڑنے کے لئے غار میں گھسے تو انہوںنے غار ہی کو بھک سے اڑا دیا۔
آپ گورنر کیوںنہ بن سکے۔ اس کی وجہ بھی وہ جانتے ہیں۔
اور اس کی وجہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں یوم تکبیر کے موقع پر وجود میں آئی۔ انہوںنے نواز شریف سے کہا کہ اب آپ تیسری بار وزیر اعظم بنیں گے، غلطی کی گنجائش نہیں، کم از کم سیاسی آ وارہ گردوں کے لئے آپ کی صفوںمیں کوئی جگہ نہیںہونی چاہئے۔ نواز شریف نے پوچھا کہ وہ کیاہوتے ہیں، انہوں نے کہا جیسے گلیوںمیں آوارہ لڑکے یا آوارہ کتے۔ نواز شریف کامزاج بگڑ گیا اور اب تک بگڑا ہوا ہے مگر غوث بخش کا کیا بگڑا، جو بگڑنا تھا وہ تو نوازشریف کا بگڑا، آدھی ٹرم ختم ہو گئی اور پلے کچھ نہیں۔
ان کے ساتھ آواری ہوٹل میں ناشتے کی محفل ایسی جمی کہ دوپہر کا سورج چمکنے لگا۔ یوم دفاع کی تقریب میں بھی وہی مرکز و محور بنے رہے، وہاںمجیب الرحمن شامی ا ور لیفٹننٹ جنرل غلام مصطفی بھی تھے۔ یہ محفل بھی دوپہر کو شروع ہوئی اور شام تک چلی۔ اتوار کی شب نامور خطاط پروفیسر محفوظ قطب نے ڈنر کا اہتمام کیا،خوب رونق لگی اور نصف شب کا عالم ہو گیا۔ پیٹ بھر گیا مگر دل نہ بھرتا تھا۔
کہنے لگے ایک بار کوئٹہ ایئر پورٹ پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاالحق نے انہیں سر سے پائوں تک دیکھا ، پھر کھی کھی کرتے ہوئے کہنے لگے، آپ کی جوتی بہت خوبصورت ہے، آپ کو مبارک ہو۔غوث بخش باروزئی نے جواب میں کہا کہ یہ ا سلئے آپ کو خوبصورت لگی ہے کہ میرے پائوںمیں ہے۔ آپ اگلی مرتبہ کوئٹہ آئیں گے تو میں ا پنے موچی سے آپ کو اسکے دو جوڑے سلوا دوں گا۔ ویسے جنرل صاحب! ہمارے ہاں رواج ہے کہ جوتی کی مبارکباد نہیں دیتے بلکہ دعا میں کہتے ہیں دشمن زیر پا۔
لاہور سے الوداع کہتے ہوئے میری دعا ہے کہ نواب غوث بخش دشمن آپ کے زیر پا!!

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن