ہمارے ملک میں جس طرح بھارت اور افغانستان اور دیگر چار پانچ ممالک دہشت گردی کروا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ بھارت اور افغانستان واویلا بھی کر رہے ہیں کہ پاکستان اُن کے ملکوں میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔ دوسرے نمبر پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے سلسلے میں تیسرے نمبر پر کراچی میں رینجرز کی کارروائیاں چوتھے نمبر پر مذہبی مدارس پر چھاپے پانچویں نمبر پر ایم کیو ایم کے استعفے چھٹے نمبر پر پیپلز پارٹی کے لوگوں کا اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اشارہ ساتویںنمبر پراور تخریب کاروں سے بعض بڑے لوگوں سے روابط یہ سب کچھ مل ملا کر جو سیاسی منظر نامہ بن رہا ہے اس کا رُخ اس طرف جا رہا ہے کہ ہر ایک پارٹی کو تنہا کرنے کی کوشش کی جائے پھر مذکورہ پارٹی سے ایسے لوگوں کو گرفتار کیا جائے جن کے بارے میں اوپر کی سطور میں ذکر کیا گیا ہے اور ان پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیںگے لیکن ملک میں انشاءاللہ قوی امید ہے مارشل لاءفی الحال نافذ نہیں ہوگا البتہ بوقتِ ضرورت میاں نوازشریف کو کیئر ٹیکر وزیر اعظم بنا کر صوبائی حکومتوں میں گورنر راج قائم کر کے سب بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈال کر ایک مرتبہ صفائی کی جائے گی،کیونکہ جو لوگ ملک میں قتل و غارت گری کے مرتکب ہیں اور جو بھتہ خور ہیں اُن کو ہر طرح سے تحفظ دینے والے صاحبان بڑے بڑے لوگ ہیں۔
خفیہ اطلاعات ہیں کہ شریف پیرزادہ ذہن کے لوگوں سے مشاورت جاری ہے کہ ملک میں مارشل لاءکا نفاذ نہ ہو اور جو صفائی درکار ہے وہ بھی ہو جائے۔ ایم کیو ایم کے استعفے اس معاملہ میں شاید بارش کی پہلی بوند ثابت ہوں۔ مولانا فضل الرحمن کو ایم کو ایم کو منانے کا ٹاسک کس نے دیا پھر معاملہ ٹھنڈا کیوں پڑ گیااور مولانا فضل الرحمن نے ثالثی سے ہاتھ کیوں کھینچ لیا؟ ایسے سوالیہ نشانات بڑے بامعنی ہیں۔اگرچہ خارجہ طور پر مشرقی اور مغربی بارڈرز پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیںمگر یقین کی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ باقاعدہ جنگ نہیں ہو گی اورصرف ہر دو جانب سے پریشر رہے گا۔ اندرونی طور پر بھی سیاسی پارٹیاں اتحاد قائم کر کے پریشر بلڈ بڑھانے کی بھر پور کوشش کریں گی لیکن جن لوگوں پر کرپشن اور دیگر معاملات میںبہت زیادہ ملوث ہونے کے الزامات نہیں یا جو ہر طرح سے آمنّاو صدقنا کہیں گے شاید اُن پر ہاتھ نہ ڈالا جائے۔جو لوگ بیرون ِ ملک چلے گئے ہیں یا جانے کی کوشش کر یں گے سب کو واپس لا یا جائے گا۔ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ جن بڑے لوگوں نے آج تک کھربوں روپے قرض لے کر معاف کر وائے ہیں اُن کی جانچ پڑتال بھی متوقع ہے۔ چند کارنرز سے معلوم ہوا ہے کہ اونٹ 2016ءمیں اس طرح کی کروٹ بیٹھ سکتا ہے۔
شریف لوگوں کے کام کرنے کا ایک اپنا سٹائل ہوتا ہے اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ کام کرتے وقت دوسرے کواحساس دلایاجائے کہ تمہاری فلاں فلاں کارکردگی کے سبب تمہارے خلاف ایکشن ہو رہا ہے۔
پنجاب کے شہیدوزیر شجاع خانزادہ پرحملے کی انکوائری بھی کئی رازوں سے پردے اٹھا رہی ہے۔ جن لوگوں نے خانزادہ پر حملہ کیا اور جولوگ پس ِ پردہ اُن سے رابطوں میں تھے آہستہ آہستہ سب شکنجے میں آنے والے ہیں۔ ان کے ناموں کی تصدیق مختلف مراحل میں آگے بڑھ رہی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ لوگ کب اپنے کےے کی سزا پاتے ہیںاور جو کچھ متوقع ہے وہ کچھ ہو جاتا ہے تو عوام کی محرومیاں بھی ختم ہو جائیں گی یا نہیں؟ کیا کرپشن منی لانڈرنگ ، چور اور چور کے دوستوں کے ساتھ جو سلوک ہو گا اس ضمن میں پاکستان کی سلامتی کے اداروں کے خلاف تو کوئی آواز بلند نہیں ہوگی؟اسی طرح عوام الناس کی کمر توڑنے والے دوسرے ناجائز منافع خوروں پر بھی ہاتھ ڈالا جاتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ چاول کی فصل بونے والا کسان رو رہا ہے کہ اس کا چاول 60روپے فی کلو سے زائد فروخت نہیں ہو رہا مگر مارکیٹ میں چاول 180روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے۔یہ ایک سو بیس روپے فی کلو منافع کِن لوگوں کی جیبوں میں جا رہا ہے؟ اگر حکومت کوئی قانون بناتی ہے تو قانون نافذ کرنے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے اور مذکورہ قانون بنائے جانے سے عوام الناس کے لےے پہلے سے بھی زیادہ مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔
ایوب خان نے جب مارشل لاءنافذ کیا تھا تو ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں پر فوری طور پر ہاتھ ڈالا گیا تھا۔ چوروں اور ڈاکوﺅں کے ساتھ اُن کے سرپرستوں کو بھی شکنجے میں لایا گیا تھا۔ مختصر یہ کہ عوام الناس کا خون چوسنے والوں کو پاکستان کی سرزمین پناہ نہیں دے رہی تھی اور اُن دنوں ملک سے باہر بھاگ جانے کا رواج بھی نہیں تھا۔ آجکل بھی الحمد للہ ملک سے باہر بھاگ جانے والوں کو گرفتار کرکے ملک میں واپس لایا جا رہا ہے اور ان کو عدالتوں کا سامنا ہے لیکن نیب والے جو مکمل رقوم واپس لینے کی بجائے مک مکاﺅ کر کے لوگوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ عوام کا اعتماد اس سے مجروح ہو رہا ہے۔ یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ نیب والے بھی مال پانی لے کر ملزموں کو کلیئرکر دیتے ہیں۔وہ لوگ تو کمائی کر لیتے ہیںمگر اس سے قومی سلامتی کے ادارے پر حرف آتا ہے۔
راقم کی پیش گوئی میں پنجاب اور سندھ کے بلدیاتی الیکشنوں کا اہم کر دار ہو گا۔ الیکشن کمیشن کے ممبران پر چند سیاست دانوں کا عدم اعتماد اور سیاسی پارٹیوں کے اتحاد آئندہ کے سیاسی منظر نامہ کے رُخ کا تعین کریں گے۔
اگرچہ کرپشن کرنے والوں میں صرف سیاسی لوگ ہی نہیں بلکہ سرکاری محکمہ جات کے بہت سے اہل کار بھی اس میں شامل ہیں جس طرح این آر او والی فہرست میں آٹھ ہزار کے قریب لوگوں کے نام تھے اور اس فہرست میں غیر سیاسی اور سرکاری اہل کاروں کے نام سیاسی کارکنوں اور رہنماﺅں کی نسبت زیادہ تھے۔
اگر این آر او والی فہرست کو پس ِ پشت ڈال بھی دیا جاتا ہے پھر بھی گزشتہ چھ سات برسوں میں انتشار پسندوں کے معاونوں اور کرپٹ حضرات کی جو نئی فہرستیں تیار ہو رہی ہیں ان میں کئی نام نہاد ملک و قوم کے خیر خواہوں کے نام آئیں گے اور جو لوگ قومی سلامتی کے اداروں کے بارے میں مشکوک گفتگو کر کے دوسروں کو بھی ان اداروں کے بارے تنقید کرنے کے لےے اکسا رہے ہیں۔سب کو حساب چکانا پڑے گا۔ بہر حال جو صاحبان بلوچ سرداروں کے رویہ، مشرقی اور مغربی بارڈرز کے حالات اور ملک کے اندرونی حالات کا تجزیہ پیش کر کے افواجِ پاکستان کے سربراہ کو مارشل لاءنافذ کرنے کے لےے تیار کرنا چاہتے ہیں امید واثق ہے اُن کو ضرور شرمندگی برداشت کرنا پڑے گی۔ ہمارے موجودہ فوجی سربراہ بڑے تحمل اور عقل و دانش والے ہیں وہ کانوں کے کچے نہیں وہ خود سامنے نہیں آئیں گے بلکہ جس طرح کے سٹ اَپ کے بارے میں اوپر کی سطور میں ذکر کیا گیا ہے اسی طرح سے کر کے نیک نامی کمائیں گے اور عوام الناس میں پاپولر بنیں گے۔کندھا آپ کا اور بندوق ہماری کے مترادف کچھ ہو سکتا ہے اور ملک اور قوم کی بہتری بھی اسی میں ہے۔