تیسری عالمی جنگ گوادر سے چین جانے والی تجارتی شاہراہ کے کناروں پر لڑی جائے گی جس کے لئے شاطر اور عیار امریکی اپنی بساط بچھا چکے ہیں جرمنی کے استثنا کے ساتھ سارا مہذب یورپ امریکی جھنڈے تلے کھڑا ہے۔ وحشت ناک ہندو جنونیوں کے نرغے میں پھڑ پھڑاتا سیکولر بھارت جنوبی ایشیاءمیں امریکی تھانیدار بن چکا ہے ان سارے گھنا¶نے منصوبوں اور مکروہ سازشوں کی راہ میں واحد رکاوٹ پاکستان کا آزمودہ ایٹمی پروگرام اور اس کی محافظ مسلح افواج ہیں اور اس تیسری عالمی جنگ کی بنیاد ٹینکوں کی آرمرڈ کور سے پاکستان پر مختلف محاذوں سے چڑھائی کا 65 اور 71ءکی جنگوں ناکام و نامراد ہونے والا پرانا منصوبہ ہے جو چونڈہ، سیالکوٹ اور لاہور میں ملیا میٹ ہوا کہ میجر عزیز بھٹی نشان حیدر جیسے جان نثار اور شقفت بلوچ ستارہ جرآت جیسے جانباز دوسری طرف نہیں تھے اور نہ آج ہو سکتے ہیں، سب سے بڑھ کر ”ایک ٹینک ایک شہادت“ کا جذبہ کہاں سے آئے گا مودی کہاں سے لائے گا۔ پاکستان کے تزویراتی ایٹمی ہتھیار، محدود دائرے، میدان جنگ میں بروئے کار ہوں گے تو عددی برتری ڈرا¶نا خواب بن جائے گی۔ اس بارے میں بی بی سی کے وقائع کا دو دہائی قبل شائع ہو نے والا ناول "Dragon's Fire" پڑھنے لائق خاصے کی چیز ہے جس کا چربہ ہمارے سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے اپنی آب بیتی میں پیش کرکے 'نیک نامی' کمائی تھی۔
آج گوادر مرکز نگاہ اور سازشوں کا مرکز ہے۔ دورافتادہ اور پس ماندہ مچھیروں کی بستی،آج دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔گوادر کی بندر گاہ امریکیوں کے گلے میں چھچھوندر بن کر اٹک گئی ہے، جسے اُگلا جا سکتا ہے نہ نِگلا۔ افغانستان سے واپسی کے تمام محفوظ راستے پاکستان سے گزرتے ہیں۔ جزائرہ ملاکا کی کھاڑیوں اور تنگنائیوں سے خلیج فارس تک تیل اور گیس کی ترسیل کے سب سے بڑے بحری راستے پر اجارہ داری کا یہ کھیل پیچیدہ مرحلے میں داخل ہوگیاہے۔ گوادر بندرگاہ چین کے زیرانتظام ہے۔ گوادر بندر گاہ کے مقابل سے صرف 30 کلومیٹر پر ایران نے پسا بندر نامی ساحلی قصبے میں اپنا نیا بحری اڈا بنانے کا اعلان کیا۔ جس کے بعد گوادر کا یہ علاقہ عالمی نقشے پر سرخ دائروں کے ساتھ نمودار ہوا، جسے امریکیوں نے اس علاقے کا سب سے بڑاHOT SPOT قرار دیا ہے۔ امریکیوں کو یقین ہو چلا ہے کہ گوادر کی بندر گاہ اور پسا بندر کا ایران بحری اڈہ پاکستان، چین اور ایران کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ ان تینوں ممالک کے فوجی ، اقتصادی اور معاشی مفادات باہم آہنگ ہوچکے ہیں۔
گوادر بندر گاہ آبنائے ہرمز سے صرف چارسو سمندری کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ آبنائے ہرمز کو دفاعی حکمت کارخلیج فارس کی شہ رگ قرار دیتے ہیں۔ یہ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں سے تیل کی چین کو ترسیل کا اہم ترین بحری راستہ ہے جبکہ خلیج فارس سے بحیرہ عرب کے درمیان تجارتی اور جنگی جہازوں کی نقل وحمل کا واحد قدیم ترین ذریعہ رہا ہے۔گوادر میں چین کی فوجی موجودگی کے بعد یہ سارا سمندر اس کی کڑی نگرانی میں آجائے گا۔
ادھر خلیج عمان کے ساحل پر پسا بندر کا ایرانی بحری اڈہ اس خطے میں ایران کی بحری قوت میں بے پناہ اضافہ کرچکا ہے۔کسی بھی ممکنہ محاذآرائی کی صورت میں اس راستے سے عالمی منڈیوں کو تیل کی ترسیل بند کی جا سکے گی۔ پسابندر اور گوادر کے درمیان صرف30 کلومیٹرکا فاصلہ ہے جو چین اور ایران کے درمیان باہمی تجارت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔ عین اس وقت پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار ہوچکے ہیں جب کہ چین اور ایران سے گرم جوشی بڑھتی جارہی ہے برصغیر کے سمندروں میں نئے علاقائی اتحاد کے امکانات واضح ہو رہے ہیں جس کی نمو سے یک طاقتی دنیا کا محور تیزی سے بدل رہا ہے۔
چین کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت کی برکات سے ایشیا تا افریقہ غربت کے اندھیرے چھٹ رہے ہیں۔ چوٹی کے ایک ماہر اقتصادیات نے کئی دہائی قبل یہ کہا تھاکہ چین فوجی طاقت کے بل بوتے پر نہیں' اپنے سیاحوں اور تاجروں کے ذریعے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کردے گا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ چین کی سرخ فوج کے بجائے اس کے سیاحوں اور تاجروں نے ہانگ کانگ کو فتح کرلیا۔ تاریخ عالم میں چینیوں نے ایک ملک دو نظام کا کامیاب تجربہ کرکے' ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ امریکی اوریورپی دانش گاہوں اور دانش وروں کے تمام خدشات اور تجزیات کو ان کے منہ پر دے مارا جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ کمیونسٹ سرخ چین ہانگ کانگ میں سرمایہ دارانہ نظام کی جنت کو تلپٹ کرکے رکھ دے گا۔ اب تو مدتیں بیت چکیں، لیکن ایک ملک میں دو نظاموں کی فلاسفی اور جدید چین کے معمار” ڈنگ ڑیاو¿ وپنگ " کی دانش پر کامیابی سے عمل جاری ہے۔ اب تا ئیوان کے سرمایہ دار تمام تر امریکی سازشوں کے باوجوداپنی اصل” مین لینڈچائنہ” کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ دہرے نظام کے اس تجربے نے عالمی سطح پر چین کے وقار میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔جس کا سب سے بڑا ثبوت باہم تصادم اور متحارب پاکستان، بھارت اور ایران ہیں۔ تمام تر علاقائی تنازعات کے باوجود مختلف شعبوں میں چین سے باہم مل کر کام کررہے ہیں۔ امریکی انخلا کے بعد عملاً افغانستان بھی چین کی جھولی میں جاگرے گا۔ اب تو پہلی بار پاکستان کی اشرافیہ نے تذبذب اور گومگو سے نکل کر کھل کر امریکا کے مقابلے میں چین کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرکے گوادر چین کے حوالے کردیا تھا،جس سے واضح ہوگیا کہ اب اس خطے میں پاکستان نے چین اور ایران کے ساتھ مل کر مفادات کا نیا کھیل شروع کردیا ہے۔ بھارت توانائی کی ضروریات کے لئے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں پر انحصار کرنے پر مجبور اور تذبذب کاشکار ہے جب کہ امریکی بحرہند میں دہراکھیل کھیل رہے ہیں وہ بھارت کے ذریعے چین کا راستہ روکنا چاہتے ہیں لیکن بھارت کے جمہوری نظام اور غریب عوام کو اپنے مفادات کے لئیے سب سے بڑاخطرہ سمجھتے ہیں۔لیکن صنعتی ترقی کی وجہ سے ابھرنے والے بھارتی طبقہ امرا اور اشرافیہ کے ذریعے وہ چین کے علاقائی کردار کو چیلنج بھی کرنا چاہتے ہیں یہ ایسا پیچیدہ دہراکھیل ہے جس میں وہ بھارت اور چین کو اپنی حکمت عملی کے ذریعے کمزورکرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا سوال ہے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تما م تر مخالفت کے باوجود چین پاکستان کو چھ نئے ایٹمی گھروں میں کام آنے والے یونٹ فراہم کرے گا۔ چشمہ کے ایٹمی بجلی گھرمیں دو نئے یونٹوں کی تنصیب پر سول سپلائرز ایٹمی گروپ شدید احتجاج کرچکا ہے ان کا خیال ہے کہ پاکستان کا چشمہ ایٹمی بجلی گھر فوجی مقاصد کے لئیے بروئے کا ر ایٹمی پروگرام سے براہ راست منسلک ہے۔
افغانستان سے پسپائی کے بعد گوادر میں چینیوں کی آمد امریکی سفارتکاری اور حکمت عملی کی دہری شکست ہے۔ پاکستان کی سول اور فوجی اشرافیہ نے امریکا کی تمام تر چالاکیوں اور چال بازیوں کے باوجوداس کو "Good Bye" کہہ دیا ہے، جس کے بعد کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا کہ یہ سب حملے باہمی رضامندی سے کئے جاتے تھے۔ کوئٹہ میں شیریں مقال ہزارہ فارسی بانوں اور پنجابی آباد کاروں کا قتل عام ،کراچی میں دن دیہاڑے کیمرے کی آنکھ سے سامنے پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تما م ڈانڈے گوادر بندر گاہ اور خلیج فارس میں پاک چین اور ایران کے مفادات سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاک ایران پائپ لائن امریکیوں کو زہریلے ناگ کی طرح ڈس رہی ہے۔ خلیج فارس میں چینی بحریہ کی موجودگی امریکیوں کے لئے ایک ڈرا¶نا خواب ہے ،گزشتہ ہفتے ایک مغربی سفارتکار نے غیر رسمی گپ شپ کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی گرمی سے مریں یا سردی میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر مرجائیں مہذب دنیا کو اس کی کوئی پروا نہیں۔امریکی کسی طور پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیں گے۔یہ منصوبہ اس علاقے میں امریکی مفادات کے لیے زہر قاتل ہوگا۔ اس مقصد میں کسی حد تک وہ کامیاب بھی ہوچکے ہیں۔ وطن عزیز میں سیاسی عدم استحکام اور انتظامی خلاءامریکیوں کی ناگزیر ضرورت ہے، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستانی قوم کے اجتماعی شعور نے لٹیروں کی شعبدہ بازیوں کو یک سر مسترد کردیا، لیکن یاد رکھئے کہ ہمارے دشمن سیاسی افراتفری پیدا کرکے ہمیں جوئے خون کو عبور کرنے پر مجبور کردیں گے ہمیں بڑے صبر وتحمل سے پھونک پھونک کر آگے بڑھنا ہوگا۔ دشمن پینترے بدل بدل کر مختلف بہروپوں میں حملہ آورہوگا،کہ ہماری منزل کھوٹی کرنا اس کے لیے زندگی اور موت کا کھیل بن چکا ہے۔ بعض سیانے کہتے ہیں کہ سازشی مہرے نئے سرے سے اپنا کھیل شروع کردیں گے۔
امریکی بساط جنگ
Sep 15, 2017