جن حالات اور پس منظر میں نئے وزیراعظم اور نئی وفاقی کابینہ نے وطن عزیز کی قیادت سنبھالی ہے اس سے قارئین کرام اور پوری قوم بخوبی واقف ہے۔ بظاہر مسلم لیگ نون کی سیاسی پارٹی اور اس پارٹی کے اتحادیوں کی ہی حکومت کا تسلسل سمجھا جاتا ہے اور عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کے سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دیئے جانے اور نئے وزیراعظم اور کابینہ کے نئے وزراء کے عہدے سنبھالنے کے باوجود پرانی پالیسیوں کا پرانا تسلسل ہی جاری ہے اور سیاسی سطح پر بھی اگرچہ میاں محمد نواز شریف مسلم لیگ نون کے آئینی صدر بھی نہیں رہے لیکن ان کی ذاتی قد آور شخصیت کا تصور اتنا کرشماتی ہے کہ ان کا پرانا پروٹوکول جاہ و جلال اور عمل دخل دونوں جگہ یعنی وفاقی حکومت اور سیاسی سطح پر بدستور قائم و دائم ہے نہ صرف یہ تاثر بلاوجہ ہے بلکہ نئے وزیراعظم نے اعلانیہ طور پر ہر موقع پر اس موقف اور تاثر کی توثیق بھی کی ہے۔ ملک و قوم کے مندرجہ بالا ماحول کی عمومی کیفیت بیان کرنے کے بعد راقم جناب شاہد خاقان عباسی کے بظاہر LOW KEY کا امیج برقرار رکھنے کے باوجود انہوں نے گزشتہ ہفتہ عشرہ کے دوران دونوں خارجہ پالیسی کی سطح پر اور داخلہ پالیسی کے مشکل ترین ماحول میں اپنے عہدہ کی ذمہ داریوں کو جن میں بعض نہایت مشکل اور پیچیدہ فیصلے شامل ہیں۔ ریاست کے اعلیٰ ترین مفاد میں سنجیدہ سٹرٹیجک معاملات کے سلجھانے میں نہایت قابل قدر کردار ادا کیا ہے۔
اس کالم میں جگہ نہایت محدود ہونے کے باعث راقم فارن پالیسی سے متعلقہ ان کے نہایت متوازن کردار پر اور داخلی سطح پر جو مسائل درپیش ہیں جن میں انتظامی سطح سیاسی سطح اور جوڈیشل سطح پر مختلف مسائل کسی بھی وزیراعظم کیلئے درد سر ہو سکتے ہیں۔ جناب شاہد خاقان عباسی اپنے خصوصی انداز میں مثالی طور پر ان سے عہدہ برآں ہو رہے ہیں جن میں سے فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے وزیراعظم کے مرحلہ وار کئی ایسے اقدامات ہیں جن کا آج کے اس کالم میں ذکر کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔
قیام پاکستان کو 70 برس ہو چکے ہیں اس کے دوران زبانی کلامی اگرچہ ہر حکومت نے مختلف اصلاحات بشمول آئینی اصلاحات کا پرچار ضرور کیا ہے لیکن عملی سطح پر نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ دو برس پہلے جب پشاور میں آرمی پبلک سکول کا سانحہ پیش آیا تو تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر رائونڈ ٹیبل کانفرنس منعقد کی ملک میں حالت جنگ نافذ ہوئی۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ نے کئی اہم فیصلے کئے۔ افواج پاکستان نے ملٹری آپریشن ضرب عضب شروع کیا اور پارلیمنٹ نے تمام پارلیمنٹری پارٹیز کی متفقہ منظوری سے نیشنل ایکشن پلان جو 20 نکات پر مشتمل تھا فوری عملدرآمد کے لئے جاری کیا۔ ان میں بھی فاٹا میں فوری اصلاحات اور ان FEDERALLY ADMINISTERED علاقوں میں موجودہ انتظامی جوڈیشل اور آئینی ڈھانچہ ختم کر کے ان علاقوں کو بلاتاخیر سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں لانے کی تجویز دی گئی تھی لیکن کسی کے کان میں جوں تک نہ رینگی۔ آپ نے اخبارات میں پڑھا ہو گا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چند روز پہلے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو وزیرستان آنے کی دعوت دی جس پر وزیراعظم نے آرمی چیف کے ساتھ مل کر مختلف اقدامات کا مرحلہ وار فیصلہ کیا۔ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی ہے کہ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں اعلیٰ عدالتوں کا فاٹا تک دائرہ بڑھانے کی منظوری دی گئی ہے جس کے تحت وفاقی کابینہ نے فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کو قبائلی علاقوں تک توسیع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں وفاقی کابینہ نے ایک مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جو پارلیمنٹ کے سامنے جلد منظوری کیلئے پیش کی جائے گی۔ مجھے امید ہے کہ پارلیمنٹ کی کوئی بھی پارٹی بغیر کسی حیلے بہانے سے اس تاریخی اقدامات میں روڑے نہیں اٹکائے گی۔ وفاقی کابینہ نے اپنے گزشتہ روز کے اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ قبائلی علاقوں کو مرحلہ وار قومی دھارے میں شامل کرنے کے اقدامات شروع کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر ترقیاتی منصوبے شروع کئے جائیں۔ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کیلئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں ایک قومی عملدرآمد کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو فاٹا کی قانونی سیاسی اور ترقیاتی اقدامات کی نگرانی کرے گی۔ کابینہ نے اس سلسلہ میں مالی سال 2015-16ء کی سفارشاتی سالانہ رپورٹیں پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی بھی منظوری دیدی ہے اس طرح گاڑی کو پٹڑی پر ڈال دیا گیاہے تاکہ حصول مقصد کی طرف پیش رفت میں مختلف رکاوٹوں کو دور کرنے کے اقدامات کئے جائیں جس کا سہرا وزیراعظم کو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کئی سالوں سے قانون شہادت سمیت 144 قوانین کے اطلاق کا بل زیر التواء پڑا تھا۔ کابینہ کے حالیہ اجلاس میں اس بل کی بھی منظوری دیدی گئی ہے جس کے نتیجہ میں انصاف کے حصول اور مقدمات کے جلد فیصلوں میں مدد ملے گی۔ فاٹا میں شعبہ تعلیم اور خاص طور پر نا خواندگی یعنی لٹریسی کے بارے میں بے شمار مسائل ہیں جن میں چھوٹی عمر کی بچیوں اور خصوصاً خواتین میں لٹریسی پر توجہ کی خاص ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے اس کا بھی نوٹس لیا ہے۔ یہی حال صحت کے شعبہ اور مختلف سطح پر ہیلتھ یونٹس اور ہسپتالوں کا ہے۔ صوبہ خیبر پی کے کی وزیر صحت اور وفاقی وزارت صحت دونوں کے درمیان صحت سے متعلقہ منصوبوں کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایسی باتوں کا بھی نوٹس لیا ہے اور وفاقی وزیر صحت کو ہدایت کی ہے کہ وہ ذاتی طور پر تحقیقات کرکے معاملات میں بہتری لائیں۔ فاٹا کے معاملات کو جس میں بے گھر لوگوں کی آباد کاری شامل ہے وزیراعظم کی دلچسپی انتہائی قابل قدر اور مثالی ہے۔ اللہ تعالی ان کو اس خاموش خدمت کا صلہ دے۔