مری سے ہمیں (میاں نواز شریف صاحب کو اور مجھے) کراچی منتقل کر دیا گیا، جہاں خصوصی عدالت میں ہمیں بدنام زمانہ طیارہ ہائی جیکنگ کیس کا سامنا کرنا تھا۔ یہاں لانڈھی جیل ہمارا ٹھکانہ تھا کیس کے دیگر شریک ملزمان شاہد خاقان عباسی، غوث علی شاہ، سیف الرحمان، رانا مقبول اور سعید مہدی بھی یہیں تھے۔ کیس کا فیصلہ اور پھر خاندان سمیت ہماری جلاوطنی، یہ ایک الگ طویل کہانی ہے (جو بعد میں بیان کریں گے)
جدہ میں 2003ء کا آغاز تھا جب مجھے پیٹ میں شدید درد ہونے لگا۔ ڈاکٹرز نے اپنڈکس میں (Fibrosis) سمجھ کر سرجری کی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ تو کینسر ہے اور امریکا میں علاج کا مشورہ دیا میرا پاسپورٹ ایکسپائر ہو چکا تھا اور جنرل مشرف کا حکم تھا کہ مجھے نیا پاسپورٹ جاری نہ کیا جائے سنگین بیماری کے باعث ایک ایک دن قیمتی تھا ولی عہد عبداللہ بن عبدالعزیز کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے پیغام بھجوایا کہ مجھے پاکستانی پاسپورٹ جاری نہ ہوا تو سعودی حکومت سعودی پاسپورٹ جاری کر دے گی ادھر جدہ کے پاکستانی قونصل خانے میں ایک ایماندر اور نیک نام قونصل جنرل تھا، اس نے مجھے پاسپورٹ جاری کر دیا میں نے ریاض میں سعد الحریری کو اس کی اطلاع کر دی یہاں میں ایک ’’دلچسپ‘‘ بات بھی بتاتا چلوں کہ میاں نواز شریف کے سوا گھر میں کسی کو میری بیماری کی سنگینی کا علم نہ تھا۔
مجھے جلد از جلد امریکہ پہنچنا تھا میں نے رابرٹ اوکلے سے رابطہ کیا وہ محترمہ بینظیر بھٹو اور پھر میاں نواز شریف کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دور میں اسلام آباد میں امریکی سفیر رہے تھے اور اسی دوران میری ان سے دوستی ہو گئی تھی وہ واشنگٹن میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے ان کی ’’دلچسپی‘‘ سے جدہ میں امریکی قونصل خانے نے اسی روز ویزا جاری کر دیا اور میں اسی شب برٹش ائرویز سے براستہ لندن نیو یارک روانہ ہو گیا۔
نیو یارک میں علاج کیلئے saloane kattering کا انتخاب ہوا تھا جس کا شمار دنیا میں کینسر کے چند جدید ترین اور بڑے ہسپتالوں میں ہوتا ہے یہاں پیٹ کے امراض کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر Murray Brennen میرے معالج تھے نیو کلیئر سکیننگ کے مختلف مراحل کے بعد دوبارہ سرجری کا فیصلہ ہوا (پہلی سرجری جدہ میں ہوئی تھی) الحمد اللہ آپریشن کامیاب رہا لیکن اگلے پانچ سال بہت اہم تھے چنانچہ ہر چار ماہ بعد CT سکین ہوتا رہا۔
ایک سال امریکہ میں قیام کے بعد میں لندن آ گیا 11 جون 2004ء کو میں لاہور ائرپورٹ پہنچا پاکستان میرا اپنا وطن تھا ڈکٹیٹر نے ہمیں جلاوطن کیا تھا، واپسی کیلئے ویزہ کی ضرورت نہیں تھی لیکن ائرپورٹ پر مجھے دوسرے جہاز پر (زبردستی) بٹھا دیا گیا جہاز کے عملے کے سوا، میں واحد پسنجر تھا تھوڑی دیر بعد میرے استفسار پر بتایا گیا کہ ہم جدہ جا رہے ہیں ……
جدہ سے طبی معائنے کیلئے دوبارہ امریکہ آ گیا اور وہاں سے لندن……
امریکہ میں دریائے ہڈسن کے کنارے نیو جرسی میں میرا قیام تھا نیو یارک میں آنا جانا لگا رہتا طبی معائنے کیلئے ڈاکٹر سے ملاقات کیلئے یہاں شاہین بٹ صاحب کا کشمیر ریسٹورنٹ بھی تھا پاکستانیوں سے گپ شپ کیلئے یہ اچھا ٹھکانہ تھا میں کشتی پر دریائے ہڈسن عبور کرتا اور نیو یارک کیلئے وہاں سے بس پکڑ لیتا لندن میں بھی 90 فیصد سفر انڈر گراؤنڈ اور بس پر ہوتا، وقت کی بچت کے ساتھ یہ سستا بھی ہے آرام دہ اور تیز رفتار بھی، روزانہ لاکھوں لوگ جسے اپنی منزل پر پہنچنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں اپنے عوام کے لئے ایسا آرام دہ، سستا باوقار، پائیدار اور قابل اعتبار ٹرانسپورٹ سسٹم میرا دیرینہ خواب تھا پنجاب میں 1997ء کی اپنی پہلی حکومت کے دوران ڈائیوو سے 700 ائر کنڈیشنڈ بسوں کی فراہمی کا معاہدہ اس خواب کی تعبیر کی طرف عملی اقدام تھا۔ ان میں سے 50 بسوں کی پہلی کھیپ کی کہانی گزشتہ کالم میں بیان ہو چکی ۔
26 نومبر 2007ء کو میاں نواز شریف اور میں لاہور پہنچے لیکن جنرل مشرف نے ہمیں عام انتخابات کیلئے ڈس کوالیفائی کروا دیا (8 جنوری کے انتخابات بے نظیر صاحبہ کے قتل کے باعث 18 فروری 2008ء کو منعقد ہوئے) عدالت عالیہ نے اپیل پر ہمارے حق میں فیصلہ دے دیا ضمنی الیکشن میں، میں راولپنڈی اور بھکر، دونوں جگہ سے پنجاب اسمبلی کا الیکشن جیت گیا میں نے راولپنڈی کی نشست چھوڑ دی اور بھکر کی نشست رکھی ( یہ نشست میرے کرم فرما سعید نوانی نے خالی کی تھی) اگست 2008ء میں، میں دوبارہ وزیراعلیٰ منتخب ہو گیا (یہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہماری کولیشن تھی)
پنجاب میں تعمیر و ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے میرے ایجنڈے میں، ان خوابوں کی تعبیر اور ان منصوبوں کی تکمیل بھی تھی جو 12 اکتوبر 1999ء کو مشرف ٹیک اوور کے بعد ادھورے رہ گئے تھے ان میں شہریوں کیلئے ٹرانسپورٹ کا جدید ترین نظام سر فہرست تھا تاکہ لوئر مڈل کلاس اور غریب طبقے کے بچوں، بوڑھوں، خواتین اور مردوں، کلرکوں، محنت کشوں، نرسوں اور کمپوڈروں کو دھواں چھوڑتی، خستہ حال اور تکلیف دہ، ویگنوں، بسوں اور چنگ چی جیسی خطرناک سواری سے نجات ملے۔ گزشتہ دس سال میں اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی، سوائے Daewoo کی 50 بسوں کی اس کیھپ کے، جس کا ذکر پہلے ہو چکا ۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے جدید ائرکنڈیشنڈ سسٹم کا آغاز، میں لاہور سے کرنا چاہتا تھا کہ یہ صوبے کا سب سے بڑا شہر تھا، جہاں ٹرانسپورٹ کے مسائل سنگین تر ہو چکے تھے ترک بھائیوں کے ساتھ، صفائی کے جدید ترین نظام کے حوالے سے ہمارے معاملات کا آغاز ہو چکا تھا (لاہور ویسٹ مینجمنٹ کی سٹوری پھر کبھی بیان کروں گا) اب جدید ترین پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم میں رہنمائی اور تعاون کیلئے بھی ہماری نگاہیں ترکوں کی طرف اٹھیں جو ترکی کے سب سے بڑے اور تاریخی شہر استنبول میں جدید میٹرو سسٹم کا کامیاب آغاز کر چکے تھے 2 کروڑ آبادی کے استبنول میں اس وقت سات لاکھ روزانہ اس سے استفادہ کرتے، اب یہ تعداد دس لاکھ کو پہنچ چکی ہے۔
قارئین کی دلچسپی کیلئے یہ بھی بتاتا چلوں کہ لاہور اور استنبول سسٹرسٹی ہیں اور خوش قسمتی سے جناب طیب اردوان (اس وقت وزیراعظم) اور جناب قادر تو پاش (تب میئر استنبول) استنبول کی مانند لاہور کو بھی جدید اور ترقی یافتہ بنانے میں ہر طرح کی مدد اور تعاون کے جذبے سے سرشار تھے۔ لاہور کو جدید میٹرو سسٹم کی فراہمی میں فنی تعاون اور رہنمائی کیلئے ترک کمپنی ULACIAM کے ساتھ معاہدہ ہوا، ادھر اپنے ہاں نیسپاک اور پنجاب ماس ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو اس منصوبے کی ڈیزائننگ ، تعمیر اور تکمیل کی ذمہ دار سونپی گئی یہ سارا کام قواعد و ضوابط کے مطابق صاف اور شفاف طریقے سے انجام پا رہا تھا۔
2012ء شروع ہو چکا تھا اور اگلے سال (2013ئ) کے وسط میں الیکشن ہونا تھے ادھر ہمالیہ سے بھی بڑا کام تھا جو ہم نے اپنے ذمہ لے لیا تھا ہم نے باقاعدہ سروے کروایا کہ لاہور کے کس علاقے میں اور کس روٹ پر اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے (لاہور کے سبھی علاقوں اور روٹوں پر اس سہولت کی فراہمی ہمارا نصب العین تھا لیکن ظاہر ہے، یہ کام مرحلہ وار ہونا تھا) پہلے مرحلے کیلئے (فیروز پور روڈ پر) گجومتہ سے (راوی کے اس پار) شاہدرہ تک روٹ کا فیصلہ ہوا یہ 27 کلو میٹر بنتا ہے۔ (ابتداء میں پہلے مرحلے کے طور پر 10 کلو میٹر کی تجویز بھی آئی لیکن اتنے بڑے شہر میں یہ ’’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘ والی بات ہوتی)
مئی 2012ء میں ہم نے ، اللہ کا نام لیکر کام کا آغاز کر دیا اس میں زمین کا حصول (لینڈ ایکوزیشن) تجاوزات کا خاتمہ لٹن روڈ پر اور داتا دربار کے پہلو میں تنگ راستے، مسلم ٹائون سے راوی کے پل تک 9 کلومیٹر کے فلائی اوور کی تعمیر (جس میں جین مندر کے چوک میں ’’روٹری‘‘ بھی شامل تھی) اور یہ بھی کہ میٹرو کے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے ساتھ شہر کے اس مصروف ترین روٹ پر، روزمرہ ٹریفک کوبھی جاری و ساری رکھنا تھا۔
الیکشن قریب آ رہے تھے اور تعمیرات کے اپنے مسائل تھے، سڑک ادھڑی ہوئی، گردوغبار اور دیگر مشکلات، ہمارے انتخابی امیدوار (اور ورکر) میرے منہ کو آتے، لڑنے کو پڑتے کہ تم نے ہمیں مروا دینا ہے۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ ہم الیکشن سے پہلے، لاہور کے شہریوں کو یہ عظیم تحفہ دینے میں کامیاب ہو جائیںگے۔
اس میں ہماری پوری ٹیم صبح و شام ایک کئے ہوئے تھی، لاہور کے سابق لارڈ میئر خواجہ احمد احسان چیف کوآرڈینیٹر تھے چیف سیکرٹری ناصر کھوسہ، چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ جاوید اسلم، ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ، فواد حسن فواد، سبطین فضل حلیم اور ڈاکٹر توقیر شاہ، غرض کس کس کا نام لوں، لاہور شہر کی انتظامیہ، ٹریفک پولیس، کنٹریکٹر اور اس منصوبے پر کام کرنے والے محنت کش، چوبیس گھنٹے کام ہو رہا تھا شاید ہی کوئی رات ہو جب ہم میٹرو کے تعمیراتی کام کا چکر لگائے گھر گئے ہوں (سچ بات یہ ہے کہ مجھے خواب بھی میٹرو ہی کے آتے) اتوار کو ہم سب 6 بجے گھر سے نکل پڑتے اور پورے
روٹ کا جائزہ لیتے۔
میٹرو کا منصوبہ تکمیل کو پہنچ رہا تھا جب جناب طیب اردوان پاکستان تشریف لائے۔ اسلام آباد کے ہوٹل سیرینا میں میاں نواز شریف کی زیر قیادت ان سے ملنے والے وفد میں‘میں بھی شامل تھا۔ یہ پرتپاک لیکن بے تکلف ملاقات تھی۔ جناب طیب اردوان نے میٹرو کا پوچھا تو میں نے بے تکلفانہ عرض کیا‘ جناب وزیراعظم! جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ کبھی کبھی شاگرد استاد سے آگے نکل جاتا ہے۔ انہوں نے استفہامیہ نظروں سے دیکھا تو میں نے بات کو آگے بڑھایا‘ استنبول کی میٹرو میں آپ کو اڑھائی‘ تین سال لگ گئے تھے اور ہم انشاء اﷲ ایک سا ل سے بھی پہلے اسے مکمل کرنے جا رہے ہیں۔ اردوان خوش ہوئے اور ہنستے ہوئے کہاکہ آپ کا منصوبہ 27 کلومیٹر کا ہے جبکہ ہمارا استنبول کا منصوبہ 32 کلومیٹر کا تھا۔ قدرے توقف کے بعد انہوں نے بات کو آگے بڑھایا‘ ہم نے قاہرہ میں میٹرو کے لئے بھی اسی طرح کا تکنیکی تعاون اور مدد فراہم کی لیکن وہاں کام التوا میں پڑا ہوا ہے۔
اور پھر الیکشن سے ٹھیک تین ماہ پہلے 10 فروری 2013ء کو شہر میں جشن کا سماں تھا‘ لاہور میٹرو کے افتتاح کا دن۔ وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ ترکی کے نائب وزیراعظم اور مختلف ملکوں کے سفیر بھی گجومتہ میں تقریب افتتاح میں موجود تھے۔ ادھر گجومتہ سے شاہدرہ تک 27 کلومیٹر کے راستے میں‘ سڑک کے دونوں طرف لوگ ہی لوگ تھے۔ شاید ہی کوئی مکان ہو جس کی چھت پر‘ خواتین اور بچوں کا ہجوم نہ ہو۔ نعروں کا شور‘ اور پھولوں کی بارش۔ مسرت کے اس موقع پر‘میں کوئی تلخ بات نہیں کرنا چاہتا‘ قارئین کو یاد ہوگا کہ میٹروکے اس عظیم الشان منصوبے کا کس طرح مذاق اڑایا گیا۔ ’’جنگلہ بس‘‘۔۔۔ اخراجات کے حوالے سے بھی مبالغہ آمیز الزام تراشی کی گئی‘ 70 اور 80 ارب تک کی باتیں۔ لیکن حقیقت موجودہ پنجاب اسمبلی میں بھی سامنے آ گئی۔ جب ایک سوال کے جواب میں‘ خود پی ٹی آئی کی حکومت نے کہا کہ اس پر 30 ارب سے بھی کم اخراجات ہوئے تھے۔ پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔
اب بھی لاہور میٹرو پر روزانہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ سفر کرتے ہیں لیکن لوگ بتاتے ہیں کہ اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی۔ بسوں کی ایئرکنڈیشننگ خراب رہتی ہے‘ ایکسیلیٹر بھی بیشتر وقت بند ہوتے ہیں‘ صفائی ستھرائی کی حالت بھی پتلی ہے۔ ٹریک بھی اچھی حالت میں نہیں۔
لاہور میٹرو کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں میں ہمارے خان صاحب بھی کم نہ تھے۔ پھر خود ان کی اپنی (گزشتہ) حکومت نے پشاور میں میٹرو منصوبے پر کام شروع کیا۔ اتنا وقت بیت گیا‘ لاگت بھی 100 ارب کو پہنچ گئی اور محاورے کے مطابق اب بھی ’’دلی دور است‘‘ والا معاملہ ہے۔ ایشیئن ڈویلپمنٹ بنک کی رپورٹ میں جابجا بدعنوانیوں کا جو ذکر کیا گیا اس کی تفصیل میں جانے کی بجائے‘ میں آپ کو پشاور میٹرو کے حوالے سے ایک لطیفہ سناتا ہوں۔ جج نے مجرم کو سزائے موت سناتے ہوئے اس کی آخری خواہش پوچھی تو اس نے عرض کیا: جناب! مرنے سے پہلے میں پشاور میٹرو پر سفر کرنا چاہتا ہوں۔ جج نے ڈانٹتے ہوئے کہا زیادہ چالاک بننے کی کوشش نہ کرو‘ اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ تم قیامت تک زندہ رہنا چاہتے ہو۔