مولانا فضل الرحمن متحرک ہیں، مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ وہ ایک بڑے سیاسی کھیل کی تیاریوں میں ہیں۔ اس میچ میں وہ کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، نتیجہ ان کے حق میں آتا ہے یا نہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ اس مرتبہ وہ مختلف سیاسی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں ہیں۔ ماضی قریب میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میاں نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں اہم مواقع پر ایسے دھوکہ دیا ہے کہ اب وہ ان دونوں پر زیادہ اعتماد نہیں رکھتے اور وہ کسی بھی قسم کی حکومت مخالف تحریک کو مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے سہارے چلانے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ مولانا وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔ اس مرتبہ ان کی حکمت عملی اس لحاظ سے ذرا مختلف ہے کہ اس مرتبہ وہ اپوزیشن میں صرف جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کے طور پر مزاحمت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور ملک کی تمام چھوٹی یا علاقائی سیاسی جماعتوں کا اتحاد قائم کرنا چاہتے ہیں اس اتحاد کی سربراہی کرتے ہوئے وہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملکی سطح کی سیاست میں اپنا سیاسی حصہ وصول کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس سیاسی حصے کی وصولی کے لیے وہ مزاحمت یا پرتشدد سیاست سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ اپوزیشن بیس تاریخ کوبیٹھ رہی ہے وہیں یہ فیصلہ ہو گا کہ ان کا کتنا حلوہ کھانے کا موڈ ہے، اپوزیشن نے طے نہ کیا تو سارا حلوہ حکمراں کھائیں گے۔ پیپلزپارٹی اے پی سی کی میزبان ہے۔ ہمیں روایتی فیصلوں اور قراردادوں سے ہٹ کر مضبوط فیصلے کرنے ہوں گے۔
اقتدار سے دوری نے مولانا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اپنے حصے کا سیاسی حلوہ کھانے کے اس خطرناک راستے میں مذہبی کارڈ بھی استعمال کریں گے۔ سیاست دانوں اور صحافیوں کے ساتھ ملاقاتوں میں وہ اس ارداے کا اظہار کر چکے ہیں۔ جہاں تک تعلق مولانا فضل الرحمن کے مذہبی کارڈ استعمال کرنے کا ہے تو اس حوالے سے کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ ملک بھر میں قائم مدارس کے ذریعے ان کا نیٹ ورک بہت مضبوط ہے۔ کراچی اور لاہور میں بھی ان کے ماننے والے بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جبکہ کراچی اور خیبر پختونخوا میں وہ اس لحاظ سے اچھی خاصی مذہبی و سیاسی طاقت رکھتے ہیں اس لیے انہیں یا ان کے طرز سیاست کو نظر انداز کرنا حکومت کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اگر مولانا فضل الرحمن چھوٹی سیاسی جماعتوں کا اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بھی مزاحمتی یا پرتشدد تحریک میں ان کا غیر مشروط ساتھ دیتی ہیں تو پھر ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو سکتا ہے کیونکہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ عام آدمی کے لیے زندگی مشکل ہو چکی ہے۔ ان حالات میں عوام کا سڑکوں پر آنا اور عوامی جذبات کو بھڑکانا زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔
مولانا فضل الرحمٰن کو سیاسی کامیابی ملتی ہے یا نہیں لیکن ان کی اس سیاسی مشق کے آغاز نے ہی پاکستانی سیاست کے تکلیف دہ پہلو کو نمایاں کیا ہے جہاں ملک کے بڑے بڑے سیاست دان اپنے حصے کے سیاسی حلوے کی کوششوں میں رہیں وہاں عوام کے لیے کس نے سوچنا ہے۔ سی سی پی او لاہور کے نامناسب بیان پر عوام نے غم و غصے کا اظہار کر کے بہت اچھا کیا اسی طرح مولانا فضل الرحمن کے اس بیان کا پوسٹ مارٹم اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ ہونا چاہیے کیونکہ الفاظ ہی سوچ کا آئینہ دار ہوتے ہیں جیسے الفاظ سی سی پی او نے ادا کیے وہ ان کی مجموعی سوچ کا اظہار تھا اسی طرح مولانا فضل الرحمن کا یہ بیان بھی ان کی سوچ کا ظاہر کرتا ہے۔ حکومت سے باہر رہتے ہوئے ان کا ہر عمل اقتدار میں واپس آنے کے لیے ہے۔ حلوہ تو صرف ایوان اقتدار سے ہی مل سکتا ہے اور یہ حلوہ عوامی امنگوں کے قتل سے حاصل ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن جس مشن پر ہیں اس عملی جامہ پہنانے کے لیے انہیں بہت بڑی رقم کی ضرورت ہو گی بتایا جاتا ہے کہ چھوٹی اپوزث جماعتوں کا اتحاد قائم کرنے کے لیے انہیں جس رقم کی ضرورت ہے وہ ان کے پاس موجود ہے اور مستقبل قریب میں خود کو اپوزیشن کے ایک بڑے رہنما کی حیثیت سے منوانے کے لیے وہ پیسہ خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ نئی سیاسی حکمتِ عملی کے تحت وہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو مجبور کر دیں گے کہ انہیں صرف جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ قومی سطح کے سیاست دان کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ مولانا مسلم پیگ ق کو بھی چھوٹی سیاسی جماعت ہی سمجھتے ہیں لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مسلم لیگ ق کے پاس قد آور سیاسی شخصیات موجود ہیں اور وہ پنجاب اور بلوچستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ق کس حد تک مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دیتی ہے اس کا فیصلہ ملک کے سیاسی حالات کریں گے۔ ق لیگ کے بڑے یہ فیصلہ تو کر چکے ہیں کہ وہ وزیر اعظم اور پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے عہدے سے کم پر کسی سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں بن سکتے۔ ان کی سیاست پنجاب میں اہم ترین عہدوں اور مرکز میں بھی اہم ترین عہدے کے ساتھ جڑی ہے۔ گوکہ ق لیگ کی سیاسی طاقت دوہزار دو والی نہیں ہے لیکن اس کے بعد بھی انہوں نے خود کو اہم عہدوں سے کم سمجھ کر سیاست نہیں کی ان کی اس پالیسی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ بھرپور انداز میں مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دیں گے۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کے لیے بھی مولانا کو لیڈنگ رول دینا اتنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ کوئی بھی اپنے حصے کے حلوے کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔
مولانا کی جماعت کے نمائشی جنرل سیکرٹری حافظ حسین احمدکہتے ہیں کہ فیصلہ کن معرکے سے قبل میاں نواز شریف کو وطن واپس آنا ہو گا۔ حافظ حسین احمد نجانے جماعت کے سیکرٹری جنرل ہیں بھی یا نہیں کیونکہ ان کی بات تو خود مولانا فضل الرحمن بھی نہیں سنتے اگر کسی شخص کی بات جماعت کا سربراہ نہ سنے تو دیگر افراد اسے کتنی اہمیت دیں گے اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ وہ اپنی سیاسی زندگی میں بہت پیچھے رہ چکے ہیں چونکہ وہ بات میاں نواز شریف کے حوالے سے تھی شاید انہیں اس وجہ سے کچھ مخصوص افراد نے زیادہ اہمیت دی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی حلقوں میں حافظ حسین احمد اب زیادہ موثر نہیں رہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ قانون میں ہے کہ تازہ مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں کی جائیں۔ اس وقت انیس سو اٹھانوے کی منظور کردہ مردم شماری ہے، اس پر انتخابات نہیں ہو سکتے۔ حلقہ بندیوں کے بعد قانون کے مطابق ایک سو بیس روز کے اندر بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔
ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے کہ دونوں ہی بلدیاتی نظام کو اس کی حقیقی روح کے مطابق نافذ نہیں کرنا چاہتیں یہ دونوں ہر وقت ایسے ہتھکنڈے اختیار کرتی ہیں کہ ملک میں بلدیاتی اداروں کا گلا گھونٹ دیا جائے، اگر مصیبت میں بلدیاتی نظام کی طرف جانا بھی پڑے تو وہ اس قسم کا تھکا ہوا نظام ہو جہاں بڑے سیاسی خاندانوں کا راج ہو اور عوام کی سیاسی تربیت نہ ہو سکے۔ اس لیے انکی موجودگی میں یہ توقع کرنا کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اچھے بلدیاتی نظام کی حمایت کریں گی ناممکن ہے۔ ملک میں حقیقی سیاسی کلچر کی نشوونما میں سب سے بڑی رکاوٹ جمہوریت کے نام نہاد علمبردار ہیں اگر یہ دونوں جماعتیں بلدیاتی نظام کو نافذ کرتیں تو آج ملک کے سیاسی حالات مختلف ہوتے۔ ترقیاتی کام زیادہ بہتر انداز میں ہوتے، اداروں پر بوجھ کم ہوتا لیکن عوام کی بدقسمتی ہے کہ ان کے سب سے بڑے خود ساختہ ہمدردوں نے ترقی اور مسائل حل کرنے میں سب سے زیادہ رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں بلدیاتی نظام کی سب سے بڑی دشمن ہیں۔ بلدیاتی نظام کا راستہ روک کر انہوں نے ملک و قوم کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ یہ عوام کو اقتدار میں شریک ہی نہیں کرنا چاہتے حالانکہ بلدیاتی نظام ہی جمہوریت کی اصل روح ہے یہیں سے ملک کو تربیت یافتہ سیاست دان ملتے ہیں، اسی سطح پر کام کر کے انہیں عوام کے حقیقی مسائل کا اندازہ ہوتا ہے۔ بلدیاتی نظام کو مضبوط کرنے سے موروثی سیاست کا خاتمہ ہوتا ہے اس لیے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں اس کی مخالفت ہے۔ اگر یہ نظام مضبوط ہو اور ہر سیاست دان کے لیے اپنا سیاسی سفر یونین کونسل سے شروع کرنا لازم ہو تو پھر بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز، حمزہ شہباز شریف کو بھی یونین کونسل کا الیکشن لڑ کر کونسلر یا ناظم بننا پڑے گا اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر انہیں عوام میں رہنا پڑے گا لیکن یہ سب ایسا نہیں چاہتے یہ پیدائشی حکمران ہیں براہ راست اپنی جماعتوں ہے سربراہ بننا چاہتے ہیں۔ سیدھا وزیر اعلیٰ ہاؤس یا وزیراعظم ہاؤس جانا چاہتے ہیں۔ اقتدار کی ہوس نے عوام کو اس بہترین نظام سے محروم کر رکھا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اسلام آباد میں لاقانونیت ہے۔ کہیں ریاست کی رٹ بھی تو ہونی چاہیے، ریاست بھی تو کسی چیز کی ذمہ داری لے۔ معزز عدالتوں سے مسلسل ایسے ریمارکس آ رہے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالتوں میں ایسے کیسز تواتر سے آ رہے ہیں کہ حکومت اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہے۔ جب اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس یہ کہہ دیں کہ کہیں ریاست کی رٹ ہونی چاہیے، ریاست بھی تو کسی چیز کی ذمہ داری لے۔ یہ بہت بھاری الفاظ ہیں اور حکومت کو جگانے کے لیے ایسے الفاظ کافی ہونگ چا ہئیں اگر اب بھی حکومت نے عوامی مسائل حل نہ کیے تو آنے والے دنوں میں حالات مزید خراب ہوں گے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے موٹر وے کیس میں ریمارکس دئیے ہیں کہ پتہ نہیں انویسٹی گیشن ہو رہی ہے یا ڈرامے بازی، سی سی پی او کے جملے پر پوری کابینہ کو معافی مانگنی چاہیے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے اس واقعے پر حکومتی وزراء کے رویے پر بھی برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ہم تسلسل کے ساتھ عوامی مسائل کی نشاندہی کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے اب تک حکومتی سطح پر بنیادی مسائل حل کرنے کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ حکومت کیا کر رہی ہے وزراء کی کارکردگی کیسی ہے اس کا جائزہ لینے یا اس پر کوئی بھی رائے قائم کرنے کے لیے ایک ہی دن میں اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹ کے معزز چیف جسٹس صاحبان کے ریمارکس ہی کافی ہیں۔