اگر ہم انسان کی بے رحمی کی داستانیں کہنے پر آجائیں تو وہ کبھی ختم ہی نہ ہوں۔ اوپر سے یہ جو انٹرنیٹ اور موبائل فون میں لگے کیمرے کا عذا ب نازل ہوا ہے، انسان کی بے دردی اور بے رحمی کے منظر ہمارے گھروں کے اندر آگئے ہیں۔ کہیں کسی کو سنگسار کیا جارہا ہے،کہیں کسی کی گردن اُتاری جارہی ہے،کہیں لوگ کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال کھیل رہے ہیں۔ یہ اِس زمانے کی بات نہیں جب مجرموں کو ہاتھی کے پائوں تلے کچلا جاتا تھا، یہ ،آج کی، اَبھی کی، اِسی دور کی بات ہے۔ بربریت کی نمائش اور مظاہرے نہ صرف ہوتے ہیں بلکہ لوگ بیٹھ کر انہیں بڑے بڑے پردہ سیمیں پر دیکھتے بھی ہیں۔ اس کم بخت ڈیجیٹل نظام نے دنیا کو برہنہ کردیا ہے۔ لفظ برہنہ پر غور کیجئے۔ یہ کوئی محاورہ نہیں ، یہ قواعد کی زبان میں روز مرہ ہے۔ دنیا برہنہ ہوگئی ہے جو پورنوگرافی کی شکل میں ہمارے خام ذہن کے لوگوں کے اعصاب کو وحشی بنا رہی ہے۔ ٹی وی پر، لیپ ٹاپ پر اور سب سے بڑھ کر موبائل فون پر فحش فلموں اور تصویروں کا سیلاب اُمڈچلا ہے۔ رہی سہی کسر ہندوستانی فلموں نے پوری کردی ہے۔ کسی زمانے میں ان کی چنری پر ایک داغ لگا کرتا تھا، اب یہ حال ہے کہ پوری چنری ہی آلودہ ہورہی ہے۔ اِسی کا نتیجہ ہے کہ کسی بڑی شاہراہ پر خرا ب ہوجانے والی کار سے خاتون کو اُتار کر اُس کے بچوں کے سامنے اُس کی حرمت اور عفت کو تار تار کیا جاتا ہے اور پھر کسی فاتح کی طرح بلاکسی خوف و خطر و شرمساری کے آزاد گھوم رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں جی تو بہت مچلتا ہے کہ مجرموں کے سرکچلنے والے ہاتھی کہیں سے لائے جائیں، تلواریں بے نیام کی جائیں، ورنہ توپیں تو کہیں گئی نہیں ہیں جن کے دَہانے پرمجرم کو باندھ کر توپ دَم کردیا جائے۔ پورنو گرافی کا بند ہونا تو مشکل ہے، فحاشی کی نقالی کرنے والوں کو دھوپ میں تپتے ہوئے کنٹینروں میں یوں قید کیا جاسکتا ہے کہ ان کی سانسیں بند ہوجائیں اور ان بد بختوںکی لاشیں کچرے کے ڈھیر پر پھینکی جائیں جن کو کُتّے اور گدھ نوچ نوچ کر کھاجائیں۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ یہ ملک کیوں درندوں کی بستی بنتا جارہا ہے۔ کیا وہ انسان کہلانے کے حقدار ہیں جنہوں نے موٹر وے پر اپنی گاڑی میں جاتی ہوئی عورت کے ساتھ اس کے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کی۔ نہیں ہرگز نہیں۔ وہ انسان نہیں ہو سکتے۔ وہ جانور ہی تھے۔ یہ بستی ہی جانوروں کی ہے۔ گزشتہ حکومت میں صرف قصور میں سیکڑوں بچوں کے ساتھ ظلم ہوا۔ اس پر ظلم مزید یہ کہ آج بھی اہل قصور کہتے ہیں بااثر ہونے کی وجہ سے اصل مجرم اَبھی تک آزاد پھر رہے ہیں۔ سانحہ چونیاں، جس میں چار بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا، ملزم گرفتار ہوا مگر کیا اُسے نمونۂ عبرت بنایا گیا کہ دوسروں کو سبق حاصل ہو؟ نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا، اِس ملک کی کئی دوسری بڑی خرابیوں کے ساتھ بڑی خرابی سُست رفتار انصاف بھی ہے جس کی وجہ سے جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ اگر اس خرابی کو دور نہ کیا گیا تو عدالتی نظام پر اعتبار کرنے والوں کا فقدان نظر آئے گا اور ہر کوئی انصاف حاصل کرنے کیلئے قانون اپنے ہاتھ میں لے گا۔ سندھ میں بھی بچوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، آٹھ مہینے کے اعداد و شمار گزشتہ پورے سال سے زیادہ ہیں۔ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق جنوری سے اگست تک سندھ میں بچوں سے زیادتی کے 93 واقعات ہوئے، بچوں کے ساتھ زیادتی کے سب سے زیادہ 18 کیس خیرپور میں ہوئے۔ ضلع ملیر میں بچوں کی گمشدگی کے 140 اور زیادتی کے 6 واقعات پیش آئے۔ کراچی میں بچوں کے اغوا کے 5 اور زیادتی کے 14 واقعات ہوئے، کورنگی میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 3 واقعات ہوئے، ضلع غربی میں 1 اور وسطی میں زیادتی کے 3 واقعات ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کراچی میں بچوں کی گمشدگی کے 661 واقعات ہوئے، 428 بچے مل گئے، جبکہ کراچی سے لاپتہ 233 تاحال بازیاب نہیں کرائے جاسکے ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں زیادتی کے کیسوں کی تعداد گزشتہ برس اتنی زیادہ تھی کہ ایک آئی جی پنجاب کے بدلنے کی وجوہات میں یہ وجہ بھی سامنے آئی۔ اگرچہ اس برس حالات کچھ بہتر رہے مگر موٹروے پر سفر کرتی ہوئی ماں نے نیند سے چونک کے اٹھے ہوئے لوگوں کو گھبرا کے آنکھیں ملنے پر مجبور کردیا ہے۔ سیالکوٹ موٹر وے کی پولیس کہاں تھی۔ اِن مجرموں نے موٹر وے کے ساتھ لگی ہوئی لوہے کی باڑ کاٹی۔ سڑک پر آئے، کار کا شیشہ توڑا، اِس میں عورت بچوں کو نکالا اور باڑ سے دوسری طرف جھاڑیوں میں لے گئے۔ یہ واقعہ لمحہ بھر میں نہیں ہو سکتا۔ کہاں تھی آخر اِس وقت پولیس جسے ٹول ٹیکس لینا تو یاد رہتا ہے مگر عوام کی حفاظت کیلئے سوئی رہتی ہے۔ سی سی پی او لاہور کے بیان بھی شرمسار کرنے کیلئے کافی ہیں۔ پہلے تو انہوں نے خاتون کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ رات کو بارہ بجے گھر سے کیو ں نکلی پھر دوسرے روز کہتے ہیں کہ یہ وہ خاتون فرانسیسی شہری ہیں اس لئے شاید فرانس سمجھ کر رات کو نکل گئی ہے۔ انتہائی مضحکہ خیز انداز میں اپنی نااہلی کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ اپنی حفاظت خود کیجئے یہ فرانس نہیں پاکستان ہے پاکستان۔ جہاں عورتیں تو کجا کمسن کلیاں بھی محفوظ نہیں۔ کوئی آٹھ ماہ پہلے 13سالہ بچی سے واہ کینٹ پولیس کی حدود میں اجتماعی زیادتی کی گئی تھی، اس کا کیا ہوا؟ گیارہ ماہ پہلے نارتھ کراچی میں خاتون سے اجتماعی زیادتی کے کیس میں ملوث دو پولیس اہلکاروں سمیت چھ ملزموں کو ایک روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ پھر کیا ہوا؟ کوئی ایک سال پہلے راولپنڈی کی ایک طالبہ سے اجتماعی زیادتی کے کیس میں دو پولیس اہلکاروں سمیت چار آدمیوں کا ریمانڈ لیا گیا تھا۔ اس کا کیا ہوا؟۔ کچھ بھی نہیں۔ کمیٹیاں بنتی ہیں۔ تحقیقات ہوتی ہے اور فائلیں بند کرکے دیمکوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے یہ ملک درندوں کی بستی بن چکا ہے۔ ہم جو اتنے مہذب نظر آتے ہیں،یہ صرف اور صرف نظر کا دھوکا ہے۔ ہمارے اندر وہ وحشی چھپا ہوا ہے جو آگے چل کر دوٹانگوں پر کھڑا ہوا اور انسان کہلایا۔ ہم جس بے رحمی سے گلی میں کھیلنے والی کسی نو خیز کلی جیسی بچی کو اُٹھاتے ہیں، پھر اسے اپنے سفاک پیروں تلے روندتے ہیں، پھر اِس کا سر پتھر سے پھوڑتے ہیں اور اس کی لاش کی اچھی طرح بے حرمتی کرنے کیلئے اِسے کہیں اور نہیں، کچرے کے ڈھیر پر پھینکتے ہیں۔ اس کے بعد خود کو تہذیب یافتہ بھی کہتے ہیں، جدید دنیا کی انتہائی ترقی یافتہ مخلوق قرار دیتے ہیں اور اپنے اوپر اشرف المخلوقات ہونے کا ٹھپہ تو اِن ہی دنوںلگا لیا تھا جب غاروں میں رہتے تھے اور جانوروں کا گوشت بھون کر دانتوں سے نوچ نوچ کر کھا تے تھے۔ بحیثیت اسلامی ملک ہمیں اپنے آئین اور قانون میں اسلامی دفعات کو سختی سے نافذ کرنی ہوگی۔ چوری، ڈکیتی پر ہاتھ کاٹنا، زنا اور جنسی زیادتی پر سر عام سنگسار کرنا، بدعنوانی اور منشیات کی خرید و فروخت پر سر قلم کرنا وقت کی اَشد ضرورت بن چکی ہے۔ انسانیت کی علمبرداری کی بَین بجاتے بجاتے ہم اس نہج پر آگئے ہیں کہ وحشی درندوں کی پیداوار میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جو عورت اور کمسن بچیوں میں فرق نہیں کرتے بس اپنی جنسی پیاس بجھانے کا ذریعہ ڈھونڈتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا علاج کرنا انتہائی ضروری ہے ورنہ یہ بستی صرف درندوں کی بستی کہلائے گی، جہاں کسی کی بہن، بیٹی اور چھوٹے بچوں کی عزتیں قطعاً محفوظ نہیں ہوں گی۔