بھارت کی انبالہ ایئر بیس پر موجود پانچ رافیل طیاروں کو باقاعدہ طور پر بھارتیہ فضائیہ کا حصہ بنا لیا گیا ہے، اس مقصد کیلئے انبالہ ایئربیس پر ایک بھرپور تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں راج ناتھ سنگھ، جنرل بپن راوت و دیگر نمایاں شخصیات نے شرکت کی اور پوجا پاٹھ کا ڈھونگ رچایا۔ بھارتی رافیل طیاروں کی بابت پاک افواج کے ترجمان میجر جنرل (ر) افتخار بابر نے صحیح کہا تھا کہ ’’ جنگیں ہتھیاروں کے بل پر نہیں بلکہ جذبے کی بنیاد پر لڑی اور جیتی جاتی ہیں‘‘۔ دوسری جانب بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے گزشتہ ہفتے ٹویٹ کر کے بتایا کہ وہ روس سے لوٹتے ہوئے ایران جائیں گے تو کئی لوگ حیران رہ گئے۔ ایسا اس لیے ہوا کیوں کہ ان کا روس کا تین روزہ دورہ پہلے سے طے تھا لیکن دورہ ایران کو یقینا خفیہ رکھا گیا۔ ایسے میں انڈیا اور چین کے درمیان سرحد پر کشیدگی اور ایران کے ساتھ چین کی بڑھتی نزدیکیوں کے درمیان انڈیا اور ایران کے وزرائے دفاع کی ملاقات خاص توجہ کی حامل رہی۔راج ناتھ سنگھ نے تہران میں ایرانی وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل عامر حتامی سے ملاقات کی، اس کے بعد موصوف نے ٹویٹ کیا 'ایرانی وزیر دفاع کے ساتھ ملاقات بہت کامیاب رہی۔ ہم نے افغانستان سمیت خطے کی سکیورٹی کے کئی مسئلوں پر دو طرفہ تعاون کے بارے میں بات کی۔'
؎غیر جانبدار سفارتی ماہرین نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ بادی النظر میں بھارت نے یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش کی ہے کہ ایران اور دہلی کے آپسی تعلقات دوبارہ بہتر ی کی جانب گامزن ہیں حالانکہ زمینی حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ راج ناتھ کی یہ کوشش محض یک طرفہ تھی جو کہ قطاً بے نتیجہ ثابت ہوئی۔یہاں یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ ملکوں کے مابین تعلقات نہ تو اچانک بگڑتے ہیں اور نہ ہی انہیں ڈرامائی طور پر اچانک سدھار ا جا سکتا ہے ۔اسی تناظر میں مبصرین نے کہا ہے کہ گزشتہ دو برس سے بھارت پوری طرح سے ایران کو نظر انداز کر رہا تھا اور مکمل طور پر امریکی خیمے میں جانے کی سعی میں مصروف تھا اور ظاہری طور پر اس کو اس بابت کچھ کامیابی بھی حاصل ہوئی کیوں کہ 2019کے ستمبر-اکتوبر میں جس طور بھارتی وزیر اعظم نے ٹرمپ کے ساتھ اعلانیہ جھپیاں ڈالیں اور ٹرمپ کے صدقے واری جانے کی کوشش کی اس کے بعد بھی اگر مودی کو یہ خوش فہمی تھی کہ ایران اور بھارت کے تعلقات پر اس صورتحال کے کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے تو اسے محض مودی سرکار کی خوش فہمی ہی قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ ہی وجہ تھی کہ یو این جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس منعقدہ 2019کے موقع پر ایران،ترکی ،ملالیشا اور پاکستان کے سربراہوں کے مابین ہونے والی ملاقاتیں مثالی حد تک خوش گوار تھیں اور چاروں سربراہوں نے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی ضرورت پر روز دیا اور واضح کیا کہ کشمیریوں کے خلاف ہونیوالے مظالم نہ صرف فوری طور پر بند ہونے چاہیں بلکہ کشمیر کے تنازعہ کو اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ اسی پس منظر میں یہ بات بھی واضح کی گئی کہ اسلاموفوبیا کی وجہ سے عالمی امن مسلسل خطرات سے دوچار ہو رہا ہے ۔
اسی تناظر میں ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ ایک طرف انڈیا اور چین کے درمیان کشیدگی طویل عرصے سے جاری ہے، تو دوسری طرف ایران اور چین کے درمیان 400 ارب ڈالر کی ڈیل ہو چکی ہے۔ ایسے میں بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ بھارت حقیقت میں اپنے روایتی شراکت دار ایران کو چین کے ہاتھوں عملاً کھوچکا ہے اور شائد اس کو خود بھی اس پر پچھتاوا ہے مگر ضرورت سے زیادہ ہوشیاری کا مظاہرہ کرنے کی خواہش اسے سفارتی طور پر مزید تنہا کرتی جا رہی ہے اوراس ساری صورتحال کیلئے وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے کو ذمہ دار قرار نہیں دے سکتا ۔ دوسری جانب یہ امر اہمیت کا حامل ہے کہ حالیہ ہفتوں میں بلوچستان کے بہت سے حلقوں نے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ وہ بھارت کے پھیلائے ہوئے جال میں ہرگز نہیں آئیں گے بلکہ مستقبل میں اپنی ساری توانائیاں پاکستان خصوصاً بلوچستان کی حقیقی فلاح و بہبود کیلئے صرف کرنے کی بھرپور سعی کریں گے۔ اب بلوچ عوام کی اکثریت کو بھی اس بات کا بخوبی ادراک ہو چکا ہے کہ ان کٹھ پتلیوں کے تانے بانے ’’را‘‘، این ڈی ایس اور کئی دیگر غیر ملکی قوتوں سے جا ملتے ہیں۔ بھارتی میڈیا میں مودی کے وہ ویڈیو کلپس چلائے جا رہے ہین جس میں انھوں نے پندرہ اگست 2016 کو دہلی کے لال قلعے سے خطاب کرتے برہمداغ بگٹی اور ہربیار مری جیسے دہشتگردوں کی شان میں زمین
آسمان کے قلابے ملائے تھے اور کہا تھا کہ بھارت بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی (خدانخواستہ) کیلئے ان عناصر کی تمام تر معاونت اور سرپرستی کرتا رہے گا‘‘۔ مبصرین کے مطابق اسے بھارتی عوام کی بد قسمتی بلکہ بد بختی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ دہلی کا حکمران ٹولہ اپنی تمام توانائیاں پراپیگنڈے کے محاذ پر صرف کر رہا ہے حالانکہ اگر وہ اپنے حقیقی مسائل کے حل کی طرف توجہ دے تو اس خطے میں امن و سلامتی قائم کرنے کا دیرینہ خواب کسی حد تک تعبیر پا سکتا ہے۔ اس ضمن میں عالمی رائے عامہ بھی اپنی اجتماعی ذمہ داریاں پوری کرنے کے حوالے سے دانستہ چشم پوشی کر رہی ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے اس بابت اپنا اخلاقی اور انسانی کردار نبھانے کی جانب توجہ مبذول کریں گے۔