9ستمبر کی رات پاک وطن کی ایک بیٹی کے ساتھ جو شرمناک ، اذیت ناک اور دل دہلا دینے وا لا واقع پیش آیا اس نے نہ صرف انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا بلکہ اس قوم کو صدمے اور غضب سے بھی دو چار کر دیا ۔ اس دھرتی کی دختر کی عزت کا خون کرنیوالے خو نخوار بھڑیوں کو سر عام پھانسی پر لٹکا کر اور پھر ان کی لاشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کتوں کو ڈال دئیے جائیں تو بھی اس حو ا کی بیٹی کی عزت واپس نہیں لائی جا سکتی ۔
اس کے زخموں کا مداوا نہیں شاید کوئی
باپ بیٹی کا زمانے سے قضا مانگ رہا ہے
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
تنگ گلیوں میں یہ معصوم دعا مانگ رہا ہے
اور پھر دل اور بھی چھلنی ہو جاتا ہے جب عزت و غیرت کے رکھوالے ایک ذمہ دار عہدے پر بر اجمان آفیسر نے اس ہیبت ناک جرم پرحوصلے کے دو بول بولنے کی بجائے اس خاتون پر طعنوں کے تیر چلائے اگر کسی کے پاس اس خاندان کے دکھوں کا کوئی مداوا نہیںتو اسے یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکے CCPOلاہور کا اس خاتون کا رات کو اکیلے نکلے اور چلنے سے پہلے پیٹرول نہ چیک کرنے جیسے اعتراضات ایک طرف اس غمزدہ خاندان پر نشتر چلانے کے متراداف ہے تو دوسری طرف ان کا یہ بیان پولیس کے مظلوم عوام کے ساتھ اس مخصوص رویے کی نشاندہی بھی کرتا ہے ۔جو وہ ان سائلان کے ساتھ روا رکھتے ہیں جب وہ اپنی شکایات لے کر تھانوں میں جاتے ہیں تو پولیس کا پہلا نشانہ وہ خود بنتے ہیں جن پر اسی طرح کے سوالات اور اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں جس سے وہ سائلین خود کو مجرم تصور کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار لوگ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی یا کسی واردات کے بارے میں پولیس کو اطلاع نہ دینے میں اپنی عافیت محسوس کرتے ہیں ۔ان کے اس بیان سے یہ تاثر بھی ابھرا ہے کہ پولیس عوام کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے اور لوگ اپنی حفاظت خود کریں اور یہ بات یقینا چوروں ، ڈاکوئوں اور ظالموں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بنے گی ۔ اگر ہم CCPOکے بیان کو اپنے اوپر لاگو کریںتو ہم میں بشمول میرے بہت سے افراد کے ساتھ ایسا ہو چکا ہو گا کہ ہم جلدی میں اپنے گھر سے نکلے اور گپ شپ میں مصروف موٹر وے پر جا پہنچے تو یاد آیا کہ گاڑی میں پیٹرول نہیں ڈلوایا اور پھر پریشانی اور گبھراہٹ میں دعائیں مانگتے کسی ریسٹ ایریا میں پہنچے یا راستے میں رک گئے تو موٹر وے موبائل ورک شاپ کو فون کرنا پڑا تو کیا ایسے میں اگر کسی کے ساتھ کوئی واردات ہو جائے تو قصور وار ہم ٹھہریں نہ کہ ڈاکو یا قاتل !اور پھر CCPOکی یہ توضیح کہ خاتون کو موٹر وے کی بجائے جی ٹی روڈ سے جانا چاہیے تھا تو اگر یہ واقعہ اس کے ساتھ جی ٹی روڈ پر پیش آجاتا تو پھر کیا ہوتا !تو پھر مزید وزنی بیان سامنے آتا کہ خاتون کو جی ٹی روڈ کی بجائے موٹر وے پر سفر کرنا چاہیے تھا کیوں کہ وہ زیادہ محفوظ ہے۔ ۔یہ سب دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے اور دل سے ایک آہ نکلتی ہے ۔
کہاں ہیں ، کہاں ہیں
ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
کہاں ہیںکہاں ہیںمحافظ خودی میں
بلائو خدایان دیںکو بلائو
یہ کوچے ، یہ گلیاں ، یہ منظر دکھائو
ثنا خوان تقدیس مشرق کو لائو
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
اس طرح کی کسمپرسی اس لیے دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ (معذرت کے ساتھ )کہ CSPکلا س اب وہ کلاس ہی نہیں رہی جس کی لوگ مثالیں دیا کرتے تھے ۔ جس کو عوام اپنی ہمدرد اور نجات دہندہ سمجھتے تھے ۔ جنہیں دیکھ کر سائلوں کے چہرے پر رونق آ جایا کرتی تھی جوپروٹوکول کے بھوکے نہیں ہوتے تھے ۔ اور نہ ہی پوسٹنگ کے لیے کسی ہوس کا شکار ۔ صرف اور صرف اپنی اہلیت اور قابلیت کا بھروسہ کیا کرتے تھے اور وہ عوام کی نظروں میں ایک باعزت مقام رکھتے تھے ۔ اب تو یہ عالم ہے افسر شاہی ، نوکر شاہی کے نچلے درجے تک آن پہنچی ہے آفیسر محض فیلڈ پوسٹنگ کے لیے Jokey (جوکی )بن گئے ہیں۔ (جاری)
ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں ؟
Sep 15, 2020