بیرون ممالک موجود ہر پاکستانی کو دُہری شہریت میسر نہیں ہے اور دُہری شہریت کیلئے اُس ممالک میں موجودگی بھی لازم نہیں ہے۔ پاکستان میں بہت سے لوگ ہونگے جن کے پاس کسی اور ملک کی بھی شہریت ہے۔ دوسرے ملک کی شہریت کی حصول کیلئے اُن ممالک نے کوئی طریقہ کار وضع کیا ہو گا کوئی کرائیٹیریا ہو گا۔ کوئی شرائط ہونگی لوازمات ہونگے۔ وہ پورے کئے جانے کے بعد ایک حلف بھی لیا جاتا ہے۔ برطانوی شہریت کے حصول کیلئے حلف نامے میں کہا جاتا ہے: ’’میں اللہ تعالیٰ سے عہد کرتا ہوں کہ برطانوی شہریت حاصل کرنے کے بعد برطانوی قانون کے مطابق عزت مآب ملکہ الزبتھ دوئم، ان کے ورثاء اور جانشینوں کا تابعدار رہوں گا۔ برطانیہ عظمیٰ کا وفادار رہوں گا اور اس ریاست میں رائج قوانین، حقوق اور آزادیوں کا احترام کروں گا، میں برطانیہ کی جمہوری اقدار کی پاسداری کروں گا اور صدق دل سے ان تمام قوانین اور ذمہ داریوں کا پابند رہوں گا، جو برطانیہ میں رائج ہیں‘‘۔برطانیہ کینیڈا اور دوسرے ممالک کے مقابلے میں امریکہ کا شہریت کے بارے میں حلف نامہ قطعی حتمی اور غیر منقسم وفاداری کا تقاضا کرتا ہے۔ امریکی حلف کے الفاظ یہ ہیں۔’’میں حلف اْٹھاتا ہوں کہ میں مکمل طور پر ہر ہستی غیرملکی حاکم ریاست اور ہر حاکم اعلیٰ سے وفاداری کرنے سے مکمل انکار کرتا ہوں اور پرانی شہریت کو منسوخ کرتا ہوں اور اب سے میں مکمل طور پر پوری دیانتداری کے ساتھ امریکہ کے آئین اور قوانین کی حمایت کرتا ہوں اور اسکے ہر دشمن کیخلاف اس سے وفاداری کا وعدہ کرتا ہوں کہ جب بھی طلب کیا گیا میں امریکی ریاست کیلئے قانون کے مطابق ہتھیار اْٹھا کر نکلوں گا۔ اسکے ساتھ میں قانون کے تحت امریکی مسلح افواج کی طرف سے غیر عسکری سرگرمیوں میں بھی حصہ لوں گا اور میں اہم قومی امور کیلئے بھی قانون کے مطابق کام کروں گا میں وعدہ کرتا ہوں کہ سول حکمرانوں کی ہدایات کے مطابق کسی ذہنی تحفظ حیلہ بہانہ اور دھوکہ کے بغیر فرائض ادا کرنے کو لازم سمجھتا ہوں اے خدا تو میری مدد فرما ‘‘۔
حلف ناموں میں ایک چیز اُس ملک سے وفاداری کی قسم لی جانی مشترک ہے۔جو لوگ پاکستان سے غیر منقسم وفاداری کے روادار نہیں انہیں جہاں آکر حکمرانی کا حق کیوں دیا جائے۔وہ پاکستان میں آکر حکمرانی تو کرنا چاہتے ہیں مگر دُہری شہریت نہیں چھوڑنا چاہتے۔کیا پاکستان ان کیلئے اتنا غیر محفوظ ہے،ایسا ہے تو انہیں وہیں رہنا چاہئے جس ملک کی شہریت عزیز ہے قبریں بھی وہیں بنائیں۔ امریکہ کی شہریت حاصل کرنیوالے کے سامنے اس وقت کیا ذہنی ہیجان برپا ہو سکتا ہے جب اپنے مادرِ وطن جس دھرتی پر اس کا جنم اور پرورش ہوئی کے بالمقابل امریکہ کی شہریت کے تقاضے آئینگے۔ پاکستان میں دہری شہریت کے حاملین کو بڑے بڑے عہدے پیش کئے جاتے ہیں۔ یقینا انکی اہلیت کے مطابق ہی انکے سروں پر منصب کی دستار فضیلت اورکُلۂ مقدم رکھا جاتا ہے۔ معین قریشی کو تو بسترِ مرگ سے لا کر پاکستان کا نگران وزیراعظم بنا دیا گیا۔ وہ بھی دُہری شہریت رکھتے تھے۔ اس سے زیادہ کسی بھی ملک سے باہر بیٹھے پاکستانی کو کیا عزت و تکریم دی جا سکتی ہے؟ آج اسی طرح کا ایک اور معاملہ بھی زیربحث ہے۔ ایک پارلیمانی کمیٹی میں اکثریت رائے سے یہ بل منظور ہوا ہے کہ کوئی بھی شخص صرف ایک نشست سے انتخاب لڑ سکتا ہے۔ اس کمیٹی کی سربراہی ریاض فتیانہ نے کی۔ اس بل کی مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے مخالفت کی۔ ووٹنگ پر پانچ ووٹ حق اور پانچ مخالفت میں آئے تو ریاض فتیانہ نے اپنا فیصلہ کن ووٹ حمایت میں کاسٹ کر دیا۔ اس بل کے تحت دو میں سے ایک نشست جو چھوڑی جاتی ہے اس کے اخراجات امیدوار سے وصول کئے جائیں گے۔ اس بل کے قانون بننے میں ابھی کئی مراحل باقی ہیں۔ ایک سے زائد نشستوں پر شوق سیاست پورا کرنے والے یا اپنی مقبولیت کی دھاک بٹھانے والے سب قومی خزانے سے نہیں اپنی جیب سے کریں تو بہتر ہے۔ اس قانون کی منظوری اُمید کرنی چاہئے کہ کوئی بھی زیادہ سے زیادہ دو سیٹوں سے انتخاب لڑنے پر اکتفا اور قناعت کریگا۔