معاہدہ ابراہیم پاکستانی دانش کا شاہکار 

Sep 15, 2020

محمد اسلم خان....چوپال

ایک کے بعد دوسرا مسلم حکمران تل ابیب کے ساتھ ہاتھ ملارہا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے بعد عمان اور مراکش قطار میں کھڑے ہیں۔ 
اسرائیل کو تسلیم کرنے اور نہ کرنے کے شور پر اکبر الہ آبادی یاد آگئے؛
مے بھی ہوٹل میں پیو چندہ بھی دو مسجد میں 
شیخ بھی خوش رہیں شیطان بھی بے زار نہ ہو 
 اور مرزااسداللہ خان غالب نے فرمایا تھا کہ ؛
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر 
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
بے اصولی کی سرزمین میں کبھی امن کی فصل نہیں لہلہاتی۔ امت سچ بولنے سے گریزاں ہے۔ ناجائز، ظالم اور اللہ تعالی کے حکم کے خلاف قائم یہودی ریاست اسرائیل پر معاہدے کو اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم سے منسوب کرکے ’’معاہدہ ابراہیم‘‘  نام دے کر امت مسلمہ کو دھوکہ دیاجارہا ہے۔ صرف اس وقت ایرانی پیشوا آیت اللہ خامنہ نائی اور ایران اسرائیل کے خلاف ڈٹا ہوا ہے امت کے کئی قائدین فلسطین سے وفا کرنے کے بجائے شعبدہ بازی کر رہے ہیں۔ 
تو دوسری طرف نئے ترک سلطان رجب طیب اردگان فلسطینیوں کے قاتلوں کے خلاف میڈیا میں خوب سرگرم ہیں، صلاح الدین ایوبی کی تلوار اور ڈھال کے ساتھ تصاویر کھنچوائی جارہی ہیں لیکن اسرائیل سے سفارتی تعلقات تک توڑنے کو تیار نہیں ۔ سفارتی تعلقات قائم کرنے والوں پر لعن طعن کرکے خوب داد سمیٹ رہے ہیں
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل میں تعلقات کی دستاویز کو ’معاہدہ ابراہیم‘ کانام بہت سوچ سمجھ کردیاگیا ہے۔ دلیل یہ دی جارہی ہے کہ تینوں بڑے ادیان کے ماننے والے یعنی مسلمان، مسیحی اور یہودی تینوں حضرت ابراہیم کا یکساں احترام کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم یہودیوں سے باربار یہی سوال پوچھاگیا ہے کہ ’تم یہودی کہاں سے اور کیسے بنے ہو؟‘۔ اللہ تعالی نے قرآن عظیم میں سوال پوچھا کہ ’تم ابراہیم کو مانتے ہو لیکن ابراہیم تو یہودی نہیں تھے؟‘ یہودیوں سے پوچھاگیا کہ ’جنہیں تم اپنا باپ داد مانتے ہو، وہ تو یہودی نہیں تھے؟‘ 
 اب بحرین بھی صیہونیوں کے گلے لگ گیا۔ امن، ترقی، خوشحالی، تعلیم، صحت اور سکیورٹی کی پرفریب دھنوں پر رقص جاری ہے۔ وقت ان پر ہنس رہا ہے کہ یہ کتنی ہلاکت خیز گھاٹی کی طرف خوشی کے گیت گاتے بڑھ رہے ہیں۔اصل سوالات کیا ہیں؟ ان پر غور کرنا اور سمجھنا ضروری ہے تاکہ وقت اور تاریخ کی عدالت میں کھاتہ صاف رہے۔ 
مغربی ماہرین کا دعوی ہے کہ ’یواے ای‘ کے اسرائیل سے تعلقات تو پہلے سے ہی استوار تھے۔ امریکہ کے ذریعے یہ تعاون جاری تھا۔  یروشلم کے رہائشی فادرڈیوڈ نیوہاس کے مطابق ’’تعلقات تو کئی سال سے بحال ہوچکے تھے لیکن اب ان کا اعلان کیا گیا ہے اور انہیں ’امن پیکج‘ کی صورت میں پیش کیاجارہا ہے حالانکہ یہ محض تعلقات کی بحالی ہے۔‘‘ ان کے مطابق ’’یو۔اے۔ای اس راستے پر پہلا ملک ہے لیکن آخری نہیں۔ وقت کے ساتھ مزید ممالک بھی اس معاہدے میں حصہ دار بنتے جائیں گے۔‘‘
یہودی راہبوں کو دعوتیں، بین المذاہب کمپلیکس کی تعمیر، اسرائیل اور یہودی ماڈلز کے صحرائے عرب میں مشترکہ شوٹنگ کے واقعات چند مثالیں ہیں۔ 2019 میں ہی یواے ای کے پہلے یہودی چیف راہب کا تقرر اہم پیش رفت کے طورپر دیکھا گیا۔ اسی سال دوبئی میں منعقدہ نمائش میں اسرائیل نے شرکت کا اعلان کیا۔ کورونا میں اسرائیل نے امدادی سامان بھجوایا۔  40چھوٹے چھوٹے جزیروں سے مل کر بنا بحرین 25 کلومیٹر طویل ایک پل کے ذریعے سعودی عرب سے جڑا ہے جسے ’شاہ فہد کاز وے‘ کہاجاتا ہے جسے رات کو کسی خیمے کی طرح طے کردیاجاتا ہے اور آمدو رفت معطل ہوجاتی ہے۔ یہ قطر اور سعودی عرب کی شمال مشرقی ساحلی پٹی کے درمیان واقع ہے۔ 2010 کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی بارہ لاکھ ہے جس میں سے نصف غیرمقامی باشندے ہیں۔ مالدیپ اور سنگا پور کے بعد یہ ایشیاء میں تیسرا سب سے کم آبادی والا ملک ہے۔ مچھیروں کی سرزمین اس کی ماضی کی پہچان تھی۔ اول اول مسلمان ہونے کا شرف بھی یہاں کے لوگوں کو حاصل ہوا۔ نبی اکرم ؐکے دور میں مختصر عرب حکمرانی کے بعد یہاں1521 سے 1602 تک پرتگالی بادشاہ کی حکومت رہی۔ پھر صفوی حکمران شاہ عباس اول کا علم لہراتا رہا۔ 1783 میں بنی عتبہ قبیلے نے بحرین پر قبضہ کرلیا اور اس وقت سے آل خلیفہ شاہی خاندان یہاں حکمران ہے۔  (جاری) 

مزیدخبریں