1970کا عشرہ تھا . پاکستان کو بہت آزمائشوں کے بعد جمہوری حکومت میسر آئی تھی۔پورے جمہوری دور میں اختلافات کے پود ے پروان چڑھتے رہے یہاں تک کہ تمام پودے پھیل کر ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے اور حزبِ اختلاف کا ایک بھر پور اتحاد ظہور میں آگیا جو اُس وقت کی سوشل ازم کی حامی حکومت کے مقابل نظامِ مصطفیٰ کا داعی تھا۔1977 کے انتخابات کے بعد زبردست تحریک اُٹھی جس کا نتیجہ جولائی 1977 کا مارشل لاء تھا ۔اِس تمہید کا مقصد کسی کی حمایت یا مُخالفت کرنا نہیںہے بلکہ ایک واقعہ بتانا ہے۔کچھ دِن ہوئے میرے ایک دوست نے برسبیلِ تذکرہ کہا کہ ایک زمانہ تھا کہ ہم نئے نئے روزگار سے وابستہ ہوئے تھے اور جب ہمیں تنخواہ ملتی تھی تو نوٹوں کے اوپر بہت نمایاں تحریر ہوا کرتی تھی ’’حصولِ رِزقِ حلال عِبادت ہے ‘‘ ۔بات آئی گئی ہو گئی لیکن خاکسار کی رگِ تجسس اُبھار گئی۔یاد تو مجھے بھی آ گیا لیکن ایک عرصہ ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے میں نے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا۔اب جو نوٹ اُلٹ پُلٹ کر دیکھے تو وہ تحریر کہیں دکھائی نہ دی۔ایک، دواور پانچ کے نوٹ تو کب کے قصّہء پارینہ بن چکے۔دس، بیس، پچاس، سو، پانچ سو، ہزار، پانچ ہزار…ہر ایک نوٹ دیکھ لیا، وہ کالے رنگ کی تحریر واقعی نظر نہ آئی۔اپنے ایک عزیز کو فون کیا۔وہ اسٹیٹ بینک کے عہدے دار ہیں۔پوچھا بھائی نوٹوں پر کبھی یہ تحریر ہوا کرتی تھی…ذرا یہ تو بتائیں کہ وہ نوٹوں سے کب اور کیوں ہٹائی گئی؟ اِس اللہ کے بندے کو بھی معلوم نہیں تھا۔کہنے لگا معلوم کر کے بتائوں گا۔کمال ہے !! اسٹیٹ بینک کو بھی معلوم نہیں!! مقامی بینک میں ایک اور عزیز ہوتے ہیں۔ انہیں فون کیا۔میرا سوال سُن کر بہت ہنسے۔فرمایا شاہد بھائی!! آپ بہت مشکل مشکل سوال کرتے ہیں۔پھر کہنے لگا ایک نوٹ پکڑیں۔ذرا اس کی پُشت پر بائیں جانب دیکھیں۔ ایک گول مہر سی لگی ہو گی۔اُس کو غور سے دیکھیں اور پڑھیں!! اب جو غور کیا اور نوٹ کو گھُما گھُما کر پڑھا تو لکھا تھا ’’ حصولِ رزقِ حلال عبادت ہے ‘‘۔اللہ کی پناہ!! 1980 کی دہائی میں بدعنوانی روکنے اور خوفِ خدا دِلانے کے لئے نوٹوں پر یہ عبارت لکھوائی گئی ۔اُس وقت عموماََ تنخواہیں ہاتھ میں دی جاتی تھیں’’ بڑے بڑے سودوں ‘‘ کا لین دین نقدی کی صورت میں ہوتا تھا’’ نوٹ ‘‘ کی اہمیت مُسلّمہ تھی۔تو اکابرینِ حکومت نے’’ تحریکِ نظامِ مصطفیٰ ‘‘ کے’’ نفاذِ اسلام ‘‘ کے لئے ایک احسن قدم اُٹھایا۔
بات یہ ہے کہ آپ کتنی ہی اخلاقی تحریریں لکھیں وہ ثبت ہی رہے گی جب تک کہ لوگوں لے لئے ’’ حصولِ رِزقِ حلال ‘‘آسان نہ بنا دیں۔ جب لوگ مارے مارے پھرتے ہیں اور عزت کی دو وقت کی روٹی سے بھی رہ جاتے ہیں تو پھر اُن کے لئے حلال حرام کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ باقی رہے وہ لوگ جو ’’ بڑے بڑے سودے ‘‘ کرتے تھے کالے دھَن کو سفید کرتے تھے ۔اُن میں ضمیر نام کی کوئی چیز ہوتی تو وہ یہ کام ہی کیوں کرتے؟ بہرحال بات ہو رہی تھی نوٹوں پر لکھی تحریر کی…تو 80 اور 90 کا عشرہ گزرتے دیر نہیں لگی۔ زمانہ بہت تیزی سے ترقی کرتا چلا گیا ۔زمانہء قدیم میں سونا چاندی کے بدلے تجارت ہوتی تھی یا بارٹر سِسٹم تھا۔چند صدیوں پہلے سونا چاندی کی جگہ کاغذ کے نوٹ آئے پھر وہ پلاسٹک کارڈ میں بدل گئے۔اب جن کے پاس کاغذ کے نوٹ ہوتے بھی ہیں تو وہ اُن کو ’’گِن گِن ‘‘ کر کب رکھتے ہیں کہ نوٹ کی بناوٹ پر غور کرتے پھریں۔اِدھر نوٹ ہاتھ میںآیا نہیں اور اُدھر وہ کسی اور کی جیب میں گیا نہیں اور بدلے میں آلو پیاز…کوئی دس سال پہلے حکومتِ پاکستان نے نئے نوٹوں کا اجراء کیاتھا۔پرانے تمام نوٹ نئے نوٹوں میں تبدیل کرائے گئے تھے۔یقیناََ اسی وقت کالے رنگ کی نمایاں عبارت کو لپیٹ کر ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہو گا ۔شکر ہے اُس وقت کی حکومت نے اسے نکالا نہیں۔شاید مذہبی طبقے کو خاموش کروانے کے لئے…کالے رنگ کی نمایاں تحریر سے کرپشن دور کرنے میں مدد ملی ہو یا نہیں کم از کم وہ ’’ نمایاں ‘‘ تو تھی۔سامنے کی طرف سے دیکھیں تو فوراََ قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کی صورت نظر آتی اور پُشت پر دیکھیں تو آنکھیں اِس تحریر کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھیں۔واقعی یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ نیکی کی تلقین کرتی ر ہے اور برائیوں سے روکے۔کیا معلوم کتنے لوگ یہ تحریر دیکھ کر رشوت لینے سے رُک گئے ہوں۔لیکن جب حکومت نے سیدھی سادی اس تحریر کو گول مہر کی ماند کر کے نوٹ کے رنگ جیسا بنا دیا تو گویا اُس نے لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ ’’ حصولِ رزقِ حلال عبادت تو ہے مگر اتنی ضروری بھی نہیں!! ‘‘۔ لہٰذا اب ہم دیکھتے ہیںکہ قلفی والے کا لاکھوں کا کھاتا ہے اور اسے معلوم ہی نہیں اور گول گپے والے کا شناختی کارڈ ہی نہیں بنا اور اس کا کھاتا بینک میں موجود ہے۔ عام آدمی کے ہاتھ میں نوٹ رکتا نہیں اور خواص کو نوٹ ہاتھ میں لینے کی ضرورت ہی نہیں اس لئے ’’حصولِ رِزقِ حلال عبادت ہے‘‘ نمایاں لکھا ہو یا نہ ہو کیا فرق پڑتا ہے!!
حصولِ رز ق حلال عبادت
Sep 15, 2021